Jump to content

گنگا

From Wikisource
323740گنگاسرور جہاں آبادی

اے آب رود گنگا اف ری تری صفائی
یہ تیرا حسن دلکش یہ طرز و دلربائی
تیری تجلیاں ہیں جلوہ فروش معنی
تنویر میں ہے تیری اک شان کبریائی
جمنا تری سہیلی گو ساتھ کی ہے کھیلی
اس میں مگر کہاں ہے تیری سی جاں فزائی
بے لوث تیرا دامن ہے داغ معصیت سے
موزوں ہے تیرے قد پر ملبوس پارسائی
دل بند ہم ہیں تیرے لخت جگر ہیں تیرے
نخل مراد ہے تو اور ہم ثمر ہیں تیرے

مینو سواد تجھ سے ہیں وادیاں ہماری
اور کشت آرزو ہے رشک جناں ہماری
وہ دن بھی ہوگا ہوں گے جب ہم غریق رحمت
اور تیری نذر ہوں گی یہ ہڈیاں ہماری
گنگا میں پھینک آنا بعد فنا اٹھا کر
برباد ہو نہ مٹی او آسماں ہماری
یا رب نہ دفن کر کے احباب بھول جائیں
لے کر ہمارے خوش خوش گنگا کو پھول جائیں

او پاک نازنین او پھولوں کے گہنے والی
سرسبز وادیوں کے دامن میں بہنے والی
او ناز آفریں او صدق و صفا کی دیوی
او عفت مجسم پربت کی رہنے والی
صل علیٰ یہ تیری موجوں کا گنگنانا
وحدت کا یہ ترانہ او چپ نہ رہنے والی
حسن غیور تیرا ہے بے نیاز ہستی
تو بحر معرفت ہے او پاکباز ہستی

ہاں تجھ کو جستجو ہے کس بحر بیکراں کی
ہم پر تو کچھ حقیقت کھلتی نہیں جہاں کی
اے پردہ سوز امکاں اے جلوہ ریز عرفاں
تو شمع انجمن ہے کس بزم دلستاں کی
کیوں جادۂ طلب میں پھرتی کشاں کشاں ہے
تجھ کو تلاش ہے کس گم گشتہ کارواں کی
جاتی ہے تو کہاں کو آتی ہے تو کہاں سے
دل بستگی ہے تجھ کو کس بحر بے نشاں سے

آئی نظر تجلی جب شاہد ازل کی
ذروں میں جا کے چمکی پھولوں میں جا کے جھلکی
ہندوستان ہے اک دریائے حسن قدرت
اور اس میں پنکھڑی ہے تو خوش نما کنول کی
نکلی ہمالیہ سے محو خروش ہو کر
تو آہ تشنہ لب تھی وہ جلوۂ ازل کی
کرتی ہوئی زمیں پر موتی نثار آئی
درشن کو آہ ہر کے تو ہریدوار آئی

یہ جوش سبزۂ گل یہ تیری آب باری
قدرت کے چپے چپے پر یہ شگوفہ کاری
ہندوستاں کو تو نے جنت نشاں بنایا
نہریں کہاں کہاں ہیں تیرے کرم کی جاری
اے آب رود گنگا موجوں میں تیرے مل کر
موج سراب ہستی ہو بے نشاں ہماری
بعد فنا ہمارے پھولوں میں بو ہو تیری
گم ہوں رہ طلب میں تو جستجو ہو تیری
آئے اجل کی ضو پر جب اپنی عمر فانی
اور ختم رفتہ رفتہ ہو سیل زندگانی
دنیا سے آہ جب ہو اپنی سفر کا ساماں
بالیں پہ اقرباں ہوں سرگرم نوحہ خوانی
جب ہونٹ خشک ہوں اور دشوار ہو تنفس
احباب اپنے منہ میں ٹپکائیں تیرا پانی
ہنستے ہوئے جہاں سے ہم شاد کام جائیں
دنیا سے پی کے تیری الفت کا جام جائیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.