گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر
by ریاض خیرآبادی

گنبد مدفن ہے یا ہے آسماں بالائے سر
یہ مکیں رکھتے ہیں سب اپنے مکاں بالائے سر

یوں لئے ہوں حشر میں بار گراں بالائے سر
دوش پر خم ہے گنہ کی گٹھریاں بالائے سر

چھوٹی سی کشتی بنا ہے آسماں بالائے سر
سیل اشک اس طرح چشم خوں فشاں بالائے سر

زیر مسجد مے کدہ میں میکدے میں مست خواب
چونک اٹھا جب دی موذن نے اذاں بالائے سر

ہم ہیں سوئے سایۂ گل میں نہیں اتنا خیال
اے عنادل اس طرح شور فغاں بالائے سر

نخل گل کی طرح دیوانوں سے بھی مانوس ہیں
لیتے ہیں بلبل جگہ اے باغباں بالائے سر

یہ نرالی تیری خلقت شمع اس پر حسن بھی
ہم نے دیکھی ایک تیری ہی زباں بالائے سر

خوش کیا یوں باغ میں لا کر مجھے صیاد نے
شاخ کے نیچے قفس ہے آشیاں بالائے سر

بیچتے پھرتے ہیں مے ہم اس طرح رستے گلی
جائے خم چھوٹی سی ہے مے کی دکاں بالائے سر

رحم کر مالک کہ میں دو دو فرشتے بھی لدے
اور پھر عصیاں کا بھی بار گراں بالائے سر

پیچھے پیچھے کارواں کے ہم تھکے ماندے ہیں یوں
پاؤں میں چھالے ہیں گرد کارواں بالائے سر

پاؤں کے نیچے سے نکلی جاتی ہے یا رب زمیں
کھا رہے ہیں چکر اتنے آسماں بالائے سر

میں وہ ہوں محشر کے پیاسوں کو پلاؤں تو سہی
حوض کوثر ہوگا اے پیر مغاں بالائے سر

آتش رنگ حنا و زلف پیچاں دیکھیے
آگ تلووں میں لگی نکلا دھواں بالائے سر

لینے جاتا ہے حرم سے کیا کہیں تم کو ریاضؔ
طاق پر رکھی ہے بوتل مہرباں بالائے سر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse