گناہ کا خوف
عبدالمغنی صاحب نے مختاری کے پیشے میں وہ نام پیدا کیا تھا کہ ڈپلوما والے وکیل بیرسٹر کیا کریں گے۔ بڑے بڑے زمیندار، تعلقدار، مہاجن خوشامدیں کرتے تھے۔ کمشنری بھر میں کون ابتدائی مقدمہ ایسا ہوتا تھا جس میں عبدالمغنی صاحب دو فریق میں سے ایک کے مددگار نہ ہوں۔ ان کی ترتیب دی ہوئی مسل دیکھ کر چوٹی کے وکلا دنگ رہ جاتے تھے اکثروں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اگر اس شخص نے وکالت کا امتحان پاس کرلیا ہوتا تو یہ ہائی کورٹ کے بہترین ایڈوکیٹس میں سے ہوتا۔
عبدالمغنی صاحب نے بلا کا دماغ پایا تھا۔ پر نہیں کٹے تھے۔ صوبہ بھر میں کہیں کا مقدمہ ہو اور کیسے ہی پیچیدہ معاملات ہوں۔ اگر فریق مقدمہ ان تک پہنچ گیا تو سب مشکلیں حل ہو گئیں۔ زبان میں نہ معلوم کیا جادو تھا اور نہ معلوم کیسے انچھر یاد تھے کہ آدمی کو رام کر لینا کوئی بات ہی نہیں تھی۔ جہاں صلح کا موقعہ ہوا دوسرے فریق کے دل میں جگہ کر کے صلح کرادی۔ جہاں لڑائی کا موقع ہوا مخالف فریق کے بہترین آدمی توڑ لیے۔ کوئی دوسرا ہزار دو ہزار میں کال نکالے یہ سو دوسو میں کامیاب ہو جائیں۔
وکیل نہ ہونے کا خود ان کو کبھی افسوس کرتے نہیں سن۔ اور افسوس کرنے کا موقعہ ہی کہاں تھا۔ کام اتنا تھا کہ فضول خیالی گھوڑے دوڑانے کا موقعہ بھی نہیں ملتا تھا۔ وکیلوں کے یہاں ایک محرر ہوتا ہے۔ کوئی ایسا ہی بڑاہوا جس کے یہاں دو ہوئے۔ ہائی کورٹ کے اونچے اونچے وکلاء کے ساتھ دو تین جونیئر لگے رہتے ہیں۔ ان کے یہاں بیس کام کرنے والے تھے اور پھر نہ جونیئر کا سوال نہ سینئر کا۔ خالی ہر شخص کی فطری قابلیت دیکھ کر کام سپر د کیا جاتا تھا۔ جو اپنا کام سمجھ کر کرتاتھا۔ ان کے جلسے میں مقدمہ کے ہر پہلو کے اسپیشلسٹ موجود تھے۔ حسب حیثیت باموقع اعتبار کرنے والے دیدارو چشم دیدگواہ مہیا ہو سکتے تھے۔ ان کے جلسے میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو سو پچاس برس کا سادہ کرم خوردہ کاغذ نکال دیں۔ دھواں دے کر نئے کاغذ کو پرانا بنا دیں۔ تین دن کے اندر حاشیہ کو دیمک سے چٹوا دیں، متن ویسے کا ویسا ہی رہے
دستاویزوں میں سے الفاظ غائب کردیں اور عبارتیں اس طرح داخل کردیں کہ بڑے سے بڑا تحریر شناس دھوکہ کھا جائے۔ ان کے ملنے والوں میں ایک منشی صاحب تھے جو بائیں ہاتھ سے اور پاؤں سے بھی لکھ لیتے تھے اور شان خط بدل دیتے تھے۔ ہفت قلم تھے۔ اس معنی میں نہیں کہ نسخ نستعلیق شکستہ وغیرہ وغیرہ لکھ لیتے تھے بلکہ اس رو سے کہ مختلف لوگوں کے انداز خط کی ایسی نقل اتارتے تھے کہ خود لکھنے والا اگر کچھ دن بعد دیکھے تو نہ جانے۔
ان کے علاوہ ایسے لوگ بھی تھے جو اکثر ضرورت ہو تو مسل گھوما دیں ریل پر سے، کچہری کے احاطے سے، گھر سے یا جہاں سے بہترین موقع ہو۔ بستے سے ضروری کاغذ غائب ہو جائے، باقی ویسے ہی رکھے رہیں۔ بالکل اسی طرح کا بستہ رکھ دیا گیا اور گواہ گھر سے کاجل کا چور اصلی بستہ لے گیا۔ اپنے یہاں کے اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے ایک شخص کی خود تعریف کرتے تھے کہ انہوں نے وہ جرات کی اور صفائی کا وہ کمال دکھایا کے دوسرا ہوتا تو پاؤں کانپ جاتے اور دھر لیا جاتا۔ ایک بہت بوڑھے فریق مخالف عبا قبا پہنے۔ جاڑوں کے دن، بغل میں بستہ دبائے اپنے وکیل کے پیچھے کھڑے بحث سن رہے تھے ان کی بغل سے بستہ نکل گیا اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی لگے رہتے تھے جو لڑائی بھڑائی میں بند نہ تھے مگر یہ سب دوسروں کے لیے کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں مقدمہ بازی میں اور عشق بازی میں سب کچھ جائز تھا۔
مگر خود اپنے لیے عبدالمغنی صاحب ان تمام باتوں سے علیحدہ رہتے تھے۔ مقدمات معاملات کی اور بات ہے۔ مثلاً بیان ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان زمیندار تھا جو بالغ ہونے کے بعد اپنے بڑے بھائی پر مقدمہ چلانے والا تھا، سب سامان لیس تھا۔ صرف دعویٰ داخل کرنا تھا۔ اسٹامپ خرید لیا گیا تھا۔ میعاد میں صرف تین دن باقی تھے اگر وہ دعویٰ ہو جاتا بڑے بھائی کا دیوالیہ نکل جاتا اور یہ بھی زیر بار ہو جاتا۔ بڑا بھائی ان کے پاس آیا۔ عبدالمغنی نے شکار کے بہانے سے اس لونڈے کو پھانسا اور تین دن کے بجائے چار دن کے لیے اس کو نہ جانے کہاں الوپ کردیا۔ کسی کو خبر تک نہ لگی۔ میعاد نکا جانے کے بعد چھوڑ دیا اور کچھ ایسی چالیں چلے کہ وہ لونڈا حبس بے جا کا دعویٰ کرنا کیسا ان واقعات کا ذکر کرتے ڈرتا تھا۔ یوں بلاوجہ کسی کارواں کبھی نہیں ستایا۔ نہ اپنے ذاتی معاملات میں ان کو کسی کے ساتھ زیادتی کرتے دیکھا۔ محلہ میں ہر شخص سے یگانگی کا برتاؤ تھا اور کون ایسا تھا جس کی خدمت انہوں نے نہ کی ہو، اپنی بات کے دھنی تھے اور ارادے کے ایسے مضبوط تھے کہ جس بات پر قائم ہو گئے پھر اس سے نہیں ہٹتے تھے چاہے کچھ ہو جائے۔
ایک مرتبہ طاعون آیا۔ بیماروں کی خبر گیری، غریبوں کی تیمارداری، میتوں کا دفن کروانا، سب اپنے ذمے لے لیا۔ طاعون کے نام سے لوگ گھبراتے ہیں مگر یہ ہر جگہ پل پڑتے تھے۔ نہ معلوم کتنے مردے خود اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارے، لوگوں نے کہا انجکشن لے لو مگر انہوں نے پرواہ بھی نہ کی۔ اس کے مرشد نے ایک تعویذ بھیجا تھا وہ تو ضرور کرتے کے نیچے گلے میں ڈال لیاتھا۔ اور سورۂ تغابن کی مزاولت رکھتے تھے اور بس۔ طاعون کی بلا ختم ہونے کے بعد عبدالمغنی کا اثر ارد گرد اچھا خاصا بڑھ گیا تھا۔ اول تو ایسے آڑے وقت میں لوگوں کے کام آئے تھے۔ دوسرے رفتہ رفتہ کچھ جائیداد بھی پیدا کر لی تھی، بہت سی دوکانیں بنوالی تھیں، جن میں کرایہ دار بساتے وقت کرایہ کا خیال اس قدر نہیں کیا جاتا تھا جتنا اثر بڑھانے اور لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کا چنانچہ میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈ وغیرہ کے الیکشن میں ان کا کنڈیڈیٹ اور ان کی پارٹی ہمیشہ جیتتی تھی۔ انہیں وجوہ سے اگر مختار صاحب کسی سے کوئی بات کہہ دیں تو اس کو ٹالنا مشکل ہو۔ چنانچہ ان کے مکان کے قریب ایک زمین تھی جو ایک شخص نے مول لی تھی۔ عبدالمغنی اس کے خواہش مند تھے۔ یہ اراضی ان کے بھی موقع کی تھی اور اس کے بھی مگران کے رعب کی وجہ سے وہ انکار نہ کرسکا۔ اسی زمین پر انہوں نے ایک مختصر سا مکان بنوایا تھا جو ابھی ابھی تیار ہوا تھا، اور خیال تھا کہ مہمانوں کے لیے وقف رہے گا۔ نماز روزے کے بڑے پابند تھے مگر اسی کے ساتھ زاہد خشک بھی نہ تھے۔ دوست احباب کے ساتھ چوک بھی چلے جاتے تھے۔ خود ان کے گھر پر بھی اس طرح کی صحبتیں آراستہ ہو جاتی تھیں۔ ان کے کمرہ میں کونے میں بایال او ر تان پورہ بھی رکھا رہتاتھا مگر یہ سب دوسروں کی خاطر اور آشنا پرستی میں گوارا کرتے تھے۔ خود ہمیشہ بے لوث رہتے تھے حس پرستی تککو جائزہ جانتے تھے۔ مگر تردامنی میں کبھی مبتلا نہیں ہوئے تھے۔ وضع داری کا یہ حال تھا کہ ریاست پور میں کسی زمانہ میں مختار تھے اس سلسلہ کو منقطع ہوئے برسوں گزر گئے تھے لیکن ان کے نام کا مختار نامہ آج تک پڑا تھا۔ ریئس صاحب کی جائیداد چوتھائی نہیں رہ گئی تھی کچھ اسی وجہ سے، اور کچھ اس وجہ سے کہ ان کی مصروفیتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ انہوں نے رئیس صاحب کو مشورہ دیا کہ مختار نامہ صاحبزادے کے نام ہو جائے۔ یہ سب کچھ تھا، مگر آج تک رئیس کو اپنا آقا ہی سمجھتے تھے، اور جو کام ہوتا تھا اپنا سمجھ کر کرتے تھے۔ رئیس صاحب کے بیٹے اور یہ قریب قریب ہم سن تھے جس وقت کا یہ واقعہ بیان کرتا ہوں، عبدالمغنی صاحب چالیس اکتالیس برس کے رہے ہوں گے اور شہامت علی رئیس صاحب کے بیٹے کا سن ۳۵ برس کے قریب ہوگا۔ آدمی ذرا شوقین مزاج تھے مقدمات کی پیروی میں بہت آیا کرتے تھے،
فکر بازاری بھی، ہر وقت ہی درباری بھیاک مصیبت ہے جوانی بھی زمینداری بھی اور چونکہ عبدالمغنی صاحب کی وجہ سے کھانے اور قیام کی جگہ سے بے فکر تھے، اس لیے شوق بھی آزادی سے پورا ہوتا تھا۔ عبدالمغنی صاحب کے گھر میں ان کا کمرہ علیحدہ تھا جو سڑک کی طرف کھلتا تھا۔ اس لیے اگر رات کو انہوں نے کسی کو بلایا بھی تو کسی کو خبر نہ ہوتی تھی۔ عبدالمغنی صاحب سے کوئی تکلف نہ تھا خود ان کا دل چاہا یا شہامت علی کی خاطر سے منٹ دو منٹ کو چلے بھی آئے اور یہ دیکھ کر کہ خاصدان میں پان اور لوٹا، گلاس پانی کا، گھڑا سب موجود ہے چلے گئے۔
شہامت علی جب مقدمہ کے سلسلہ میں آتے تھے تو عموماً دو تین دن رہتے تھے اور جب شہر کے قیام کا کوئی عذر معقول نہ رہ جاتا تھا تو چلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ خلاف عادت کئی دن رہے چہرے کی کچھ پریشانی کچھ فکر مندی سے عبدالمغنی کو پتہ چلا، پوچھنے لگے خیر تو ہے۔
شہامت علی۔ یار کیا کہیں، یہ سامنے درزی کی دکان نہیں ہے اس کوٹھے پر ایک رنڈی آئی ہوئی ہے۔ کہیں باہر کی ہے۔ میں نے ابکی ہی دورے میں دیکھا ہے۔ بھئی ہم تو کھیت رہے مگر وہ ظالم کسی طرح رنگ پر آتی ہی نہیں۔ کچھ ہم نے بھی حماقت کی کہ اپنے دل کا راز اس پر ظاہر کردیا۔ اس کے بعد اب تو اس کے مزاج ہی نہیں ملتے۔ گھمن خان کو درمیان میں ڈالا مگر وہ پابندی کا عذر کرتی ہے۔ اور یہاں یہ حال ہے کہ خواب و خور حرام ہے۔ رات کی نیندیں اڑ گئی ہیں او ر جو ہم کوشش کرتے ہیں وہ اورکھنچتی جاتی ہے۔
عبدالمغنی۔ ان اونچی رنڈیوں میں یہی تو خرابی ہوتی ہے کہ یوں خاطر مدارات میں لگاوٹ سب کچھ کریں گی مگر معاملے کی بات پر عجیب مزاج کی لینے لگتی ہیں۔ اور اگر کہیں جھوٹ موٹ کی نتھ پہنے ہوئیں تو آشنائی نہ ہوئی قلعہ ہی فتح کرنا سمجھئے۔ چھوٹتے ہی بی نائکہ صاحب کہتی ہیں۔ ناصاحب، ابھی مری بچی کم سن ہے کچھ دن آئیے جائیے، اٹھئے بیٹھیے، لڑکی سے مانوس ہو جائیے، آپ اس کی طبیعت پہچان لیں وہ آپ کے مزاج سے واقف ہوجائے پھرلونڈی کو عذر ہی کیا ہو سکتا ہے۔
اگر پیشے میں آچکی ہے تو نوکری کا سوال پہلے ہی دھرا ہے مستقل تعلق کیجئے، پابند کیجئے اور خود بھی پابند ہو جائیے۔ پھر سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ادھر تعلق ہوا نہیں، ادھر عیاشی کے گزٹ میں نام چھپا نہیں۔ اگر بڑے بڑے لوگوں کے نام سے یہ اپنے کو نہ منسوب کریں تو اعلیٰ طبقے والی کہلائیں کیوں کر اگر چوری چھپے تعلق کیجئے تو اس میں بھی جب تک مہینوں حاضری نہ دیجئے اور ایک کی جگہ چار خرچ نہ کیجئے کام نہیں چلتا۔ تمہارے معاملے میں اتنا غنیمت ہے کہ تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو۔ باہر والے کی رسائی چوری چھپے کبھی کبھی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں دام بھلے چنگے ہاتھ آجاتے ہیں اور عام طورسے کمانے کا نام بھی نہیں ہوتا۔ خیر چلو ذرا ہم بھی دیکھیں۔ اسی طرف سے نیا مکان بھی دیکھتے آئیں گے۔ آج کئی دن سے نہیں گئے۔ تخت، پلنگ، کرسیاں وغیرہ تو پہنچ گئی ہیں ذرا دیکھنا ہے کہ کس طرح سے سجا جائے اس طرف سے کھڑے کھڑے وہاں بھی چلنا مکان کی آرائش وغیرہ میں تمہارے سلیقے کے ہم ہمیشہ سے قائل ہیں۔
اس رنڈی کے یہاں پہنچ کر میاں عبدالمغنی صاحب نے منہ سے توکچھ نہ کہا، مگر شہامت علی کا ایسا ادب و لحاظ کیا گویا یہ ان کے ادنیٰ ملازم ہیں۔ ایک ایک گلوری نوش کی اور رئیس صاحب کی طرف سے کچھ دے کر دونوں آدمی اٹھ آئے۔ لیجئے صاحب وہاں رنگ ہی بدل گیا ادھر یہ لوگ رخصت ہوئے اور ادھر نائکہ نے استاد گھمن خاں کو بلایا کچھ سرگوشیاں ہوئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاملہ روبراہ ہو گیا۔ پیغام بھیجا کہ لونڈی کو حکم میں کبھی عذر تھا نہ ہے۔ صرف بات یہ ہے کہ رات میں دوسرے کی پابندی ہے، دن کو جب چاہے گھڑی دو گھڑی کے لیے طلب کر لیجئے۔
اب دقت یہ آن پڑی کہ رات کے لیے تو ان کا کمرہ مناسب تھا مگر دن کے لیے بالکل ناموزوں تھا۔ عبدالمغنی کے اعزاء، نوکر چاکر، لڑکے سب ہی موجود تھے۔ مناسب یہی معلوم ہوا کہ وہی نو نعمیر مکان تخلیہ کے لیے کام میں لایا جائے۔
عبدالمغنی کچہری جا چکے تھے۔ چنانچہ شہامت علی نے ایک لڑکے کو دوڑایا کہ عبدالمغنی سے اس مکان کی کنجی مانگ لائے، یہ بھی کہلا بھیجا کہ جب فرصت ہو توخود بھی چلے آئیں۔ کنجی تو انہوں نے بھجوا دی اور خود تھوڑی دیر میں آنے کو کہا۔ کلید مراد ہاتھ آگئی، اب عبدالمغنی کو کون یاد کرتا ہے۔ انہوں نے نوکر کو تو اس رنڈی کے یہاں بھیجا اور خود کنجی جیب میں لے کر اس نئے مکان کی طرف چلے۔ سب سے پہلے نل کھول کر دیکھا کہ پانی آرہا ہے۔ اس کے بعد پلنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ نواڑ کی پلنگڑیاں متعدد بچھی ہوئی تھیں۔ اونھ، تکیہ بچھونا نہیں ہے نہ سہی، لوٹا بھی نہیں ہے۔ مگر شیشے کی الماری میں جگ او ر گلاس تو ہیں۔ یار کچھ پان منگوانے چاہییں۔ نوکر جب آئے گا تو وہ ہی لے آئے گا۔ شہامت علی صاحب کی بے تابی بیان کرکے اپنے پڑھنے والوں پر ناتجربہ کاری کا اتہام لگانا نہیں چاہتا۔
قصہ مختصر کچھ انتظار کے بعد معشوقہ محبوبہ تشریف لائیں۔ انہوں نے دھڑکتے دل سے استقبال کیا۔ نوکر کو گلوریاں، برف، لیمنڈ، لینے کو بھیجا اور پاس تو بٹھا لیا مگر نوکر کی واپسی کے انتظار میں دست ہوس اور زیادہ نہ بڑھایا۔ ہاں جو باتیں اظہار شوق کی بالکل پیش پا افتادہ تھیں ان کا ذکر نہیں مگر نگاہ نوکرکے دھڑکے میں درہی سے لڑی رہی۔ اتنے میں نوکر بھی آگیا او اس کے ساتھ میاں عبدالمغنی بھی دھر دھمکے ان کو دیکھ کر شہامت علی صاحب کے چہرے پر مسرت، خلوص اور شکر گزاری کا اشتہار لگ گیا۔ مگر عبدالمغنی صاحب کے چہرے پر خلاف بعید اور سنجیدگی متانت بلکہ اس سے بھی بالاتر وہ کیفیت ظاہر تھی جو اس وقت ہوتی ہے۔ جبکہ آدمی مروت کو توڑ کر کسی دوست کے خلاف دو ٹوک فیصلہ کرلیتا ہے۔ شہامت علی کا دل دھک سے ہوگیا۔ رنڈی کے دوسرے پہلو میں بیٹھنے کی دعوت دی مگر عبدالمغنی نہ بیٹھے۔ ایک دو سیکنڈ چپ کھڑے رہے اس کے بعد کہنے لگے۔ یار سنو۔ تم جانتے ہو کہ ہماری چیز جان مال دوستوں کے لیے وقف ہے مگر ابھی مکان میں یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ابھی اس گھر میں میلاد شریف نہیں ہوا ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |