گناہوں سے نشوونما پا گیا دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
by میراجی

گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل

اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل

یہ ننھی سی وسعت یہ نادان ہستی
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل

نہ تھا کوئی معبود پر رفتہ رفتہ
خود اپنا ہی معبود بنتا گیا دل

نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل

بجائے دل اک تلخ آنسو رہے گا
اگر ان کی محفل میں آیا گیا دل

پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ہے
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل

کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے
اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل

بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل

کہی بات جب کام کی میراجیؔ نے
وہیں بات کو جھٹ سے پلٹا گیا دل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse