گل کی اور بلبل کی صحبت کو چمن کا شانہ ہے
Appearance
گل کی اور بلبل کی صحبت کو چمن کا شانہ ہے
سرو ہے جوں شمع تس پر فاختہ پروانہ ہے
روز و شب یا نوحہ یا زاری ہے یا آہ و فغاں
یا الٰہی یہ کوئی دل ہے کہ ماتم خانہ ہے
تن کر اس کی تیغ کے آگے ہوا ہے سر بکف
ہے قیامت ہے غضب یہ دل ہے یا دیوانہ ہے
بلبل تصویر کی مانند صید دل کے تئیں
نے ہوا اڑنے کی نے پروائے آب و دانہ ہے
ایک حالت پر نہ دیکھا اس کو ہم نے ایک آن
گہ گل و گہ بلبل و گہ شمع و گہ پروانہ ہے
معتکف ہو شیخ اپنے دل میں مسجد سے نکل
صاحب دل کی بغل میں دل عبادت خانہ ہے
مے کشو مجھ کو تمہاری بزم کی حسرت نہیں
پاس میرے دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ ہے
خواب میں تھے جب تلک تھا دل میں دنیا کا خیال
کھل گئیں آنکھیں تو دیکھا ہم نے سب افسانہ ہے
شعر استادانہ و حاتمؔ ہے بے باکانہ وضع
طبع آزادانہ و اوقات درویشانہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |