گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
by مرزا محمد رفیع سودا

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

کیا ضد ہے مرے ساتھ خدا جانے وگرنہ
کافی ہے تسلی کو مری ایک نظر بھی

اے ابر قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھو لخت جگر بھی

اے نالہ صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے
پایا نہ تنک دیکھنے تیں روئے اثر بھی

کس ہستئ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تج کو خبر بھی

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی

سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse