گل ویرانہ ہوں کوئی نہیں ہے قدرداں میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گل ویرانہ ہوں کوئی نہیں ہے قدرداں میرا
by جگت موہن لال رواں

گل ویرانہ ہوں کوئی نہیں ہے قدرداں میرا
تو ہی دیکھ اے مرے خلاق حسن رائیگاں میرا

یہ کہہ کر روح نکلی ہے تن عاشق سے فرقت میں
مجھے عجلت ہے بڑھ جائے نہ آگے کارواں میرا

ہوا اس کو اڑا لے جائے اب یا پھونک دے بجلی
حفاظت کر نہیں سکتا مری جب آشیاں میرا

زمیں پر بار ہوں اور آسمان سے دور اے مالک
نہیں معلوم کچھ آخر ٹھکانا ہے کہاں میرا

مجھے نغمے کا لطف آتا ہے راتوں کی خموشی میں
دل بشکستہ ہے اک ساز آہنگ فغاں میرا

وہیں سے ابتدائے کوچۂ دلدار کی حد ہے
قدم خود چلتے چلتے آ کے رک جائے جہاں میرا

ذرا دور اور ہے اے کشتئ عمر رواں ساحل
کہ اس بحر جہاں میں ہر نفس ہے بادباں میرا

ہوئی جاتی ہے تنہائی میں لذت روح کی ضائع
لٹا جاتا ہے ویرانے میں گنج شائگاں میرا

عناصر ہنستے ہیں دنیا کی وسعت مسکراتی ہے
کسی سے پوچھتے ہیں اہل بینش جب نشاں میرا

مرے بعد اور پھر کوئی نظر مجھ سا نہیں آتا
بہت دن تک رکھیں گے سوگ اہل خانداں میرا

غنیمت ہے نفس دو چار جو باقی ہیں اب ورنہ
کبھی کا لٹ چکا سرمایۂ سود و زیاں میرا

ابھی تک فصل گل میں اک صدائے درد آتی ہے
وہاں کی خاک سے پہلے جہاں تھا آشیاں میرا

رواںؔ سچ ہے محبت کا اثر ضائع نہیں ہوتا
وہ رو دیتے ہیں اب بھی ذکر آتا ہے جہاں میرا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse