گل زار ہے داغوں سے یہاں تن بدن اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گل زار ہے داغوں سے یہاں تن بدن اپنا
by نظیر اکبر آبادی

گل زار ہے داغوں سے یہاں تن بدن اپنا
کچھ خوف خزاں کا نہیں رکھتا چمن اپنا

اشکوں کے تسلسل نے چھپایا تن عریاں
یہ آب رواں کا ہے نیا پیرہن اپنا

کس طرح بنے ایسے سے انصاف تو ہے شرط
یہ وضع مری دیکھو وہ دیکھو چلن اپنا

انکار نہیں آپ کے گھر چلنے سے مجھ کو
میں چلنے کو موجود جو چھوڑو چلن اپنا

مسکن کا پتہ خانہ بدوشوں سے نہ پوچھو
جس جا پہ کہ بس گر رہے وہ ہے وطن اپنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse