گل بھی خوش طلعت ہے پر اے ماہ تو کچھ اور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گل بھی خوش طلعت ہے پر اے ماہ تو کچھ اور ہے
by میر شیر علی افسوس

گل بھی خوش طلعت ہے پر اے ماہ تو کچھ اور ہے
باس اس میں اور کچھ ہے تجھ میں بو کچھ اور ہے

کہنے سننے کا نہیں یہ وقت جا واعظ کہیں
عالم مستی میں اپنی گفتگو کچھ اور ہے

حور و غلماں کی ہوس کافر ہو جس کو ٹک بھی ہو
عاشقوں کے دل کی زاہد آرزو کچھ اور ہے

ٹوکتا تو میں نہیں پر ان دنوں نام خدا
خوب چمکے ہو تمہارا رنگ رو کچھ اور ہے

طشت و خنجر گردن و سر جمع ہیں مت دیر کر
قصد گر دل میں ترے اے جنگجو کچھ اور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse