گلے میں ہاتھ تھے شب اس پری سے راہیں تھیں
گلے میں ہاتھ تھے شب اس پری سے راہیں تھیں
سحر ہوئی تو وہ آنکھیں نہ وہ نگاہیں تھیں
نکل کے چہرے پہ میدان صاف خط نے کیا
کبھی یہ شہر تھا ایسا کہ بند راہیں تھیں
فراق میں ترے عاشق کو جا کے کل دیکھا
کہ وہ تو ہیچ تھا کچھ اشک تھے کچھ آہیں تھیں
بگولے اب ہیں کہ غربت ہے گور شاہاں پر
سروں پہ چتر جلو میں کبھی سپاہیں تھیں
ہزاروں لوٹ گئے کل اٹھی جو وہ چلمن
خدنگ موئے مژہ برچھیاں نگاہیں تھیں
کیا یہ شوق نے اندھا مجھے نہ سوجھا کچھ
وگرنہ ربط کی اس سے ہزار راہیں تھیں
یہ ضعف ہے کہ نکلتی نہیں ہیں اب دل سے
کبھی فلک سے بھی اونچی ہماری آہیں تھیں
جگر میں ہجر کی کل چبھ رہی تھیں کچھ پھانسیں
مگر جو غور سے دیکھا تری نگاہیں تھیں
پہنچ گئے سر منزل چلے جو چال نئی
انہیں میں پھیر تھا دیکھی ہوئی جو راہیں تھیں
فلک کے دور سے دنیا بدل گئی ورنہ
جہاں بنے ہیں یہ مے خانے خانقاہیں تھیں
یہ ضعف اب ہے کہ ہلنا گراں ہے قدموں کو
سبک روی میں کبھی ان کو دستگاہیں تھیں
مشاعرے سے حسیں کیوں نہ چھین لے جاتے
رباعیاں مری چو گو شبہ کلاہیں تھیں
حسین زر کے ہیں طالب کہ اب ہیں گرد امیرؔ
غریب ہم تھے تو یہ پیار تھا نہ چاہیں تھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |