گلے میں ہاتھ تھے شب اس پری سے راہیں تھیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلے میں ہاتھ تھے شب اس پری سے راہیں تھیں
by امیر مینائی

گلے میں ہاتھ تھے شب اس پری سے راہیں تھیں
سحر ہوئی تو وہ آنکھیں نہ وہ نگاہیں تھیں

نکل کے چہرے پہ میدان صاف خط نے کیا
کبھی یہ شہر تھا ایسا کہ بند راہیں تھیں

فراق میں ترے عاشق کو جا کے کل دیکھا
کہ وہ تو ہیچ تھا کچھ اشک تھے کچھ آہیں تھیں

بگولے اب ہیں کہ غربت ہے گور شاہاں پر
سروں پہ چتر جلو میں کبھی سپاہیں تھیں

ہزاروں لوٹ گئے کل اٹھی جو وہ چلمن
خدنگ موئے مژہ برچھیاں نگاہیں تھیں

کیا یہ شوق نے اندھا مجھے نہ سوجھا کچھ
وگرنہ ربط کی اس سے ہزار راہیں تھیں

یہ ضعف ہے کہ نکلتی نہیں ہیں اب دل سے
کبھی فلک سے بھی اونچی ہماری آہیں تھیں

جگر میں ہجر کی کل چبھ رہی تھیں کچھ پھانسیں
مگر جو غور سے دیکھا تری نگاہیں تھیں

پہنچ گئے سر منزل چلے جو چال نئی
انہیں میں پھیر تھا دیکھی ہوئی جو راہیں تھیں

فلک کے دور سے دنیا بدل گئی ورنہ
جہاں بنے ہیں یہ مے خانے خانقاہیں تھیں

یہ ضعف اب ہے کہ ہلنا گراں ہے قدموں کو
سبک روی میں کبھی ان کو دستگاہیں تھیں

مشاعرے سے حسیں کیوں نہ چھین لے جاتے
رباعیاں مری چو گو شبہ کلاہیں تھیں

حسین زر کے ہیں طالب کہ اب ہیں گرد امیرؔ
غریب ہم تھے تو یہ پیار تھا نہ چاہیں تھیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse