گلے لگائیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلے لگائیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں
by رند لکھنوی

گلے لگائیں بلائیں لیں تم کو پیار کریں
جو بات مانو تو منت ہزار بار کریں

یہ ہاتھ کیسے ہیں بیکار کچھ تو کار کریں
بہار آئی گریبان تار تار کریں

کہاں سے لائیں اب اس کو جو ہمکنار کریں
تسلی کیا تری او جان بے قرار کریں

وہ ربط تم سے بڑھائیں وہ تم کو یار کریں
ہزار طرح کے جو جبر اختیار کریں

گرائے سیل عناصر کی چار دیواری
خراب خانۂ تن چشم اشکبار کریں

تمہارے در سے نہ مایوس جائیں حاجت مند
قبول ہووے جو توبہ گناہ گار کریں

کفن بھی ہو گیا میلا دھرے دھرے اے موت
تمام عمر ہوئی کب تک انتظار کریں

برنگ غنچہ زباں ہے دہاں میں زیر زباں
تمہارے قول کا کیا خاک اعتبار کریں

گدا ترے در دولت کے ہیں یہ مستغنی
جو سلطنت بھی ملے تو نہ اختیار کریں

غرور حسن سے ہرگز سنے گا ایک نہ گل
چمن میں نالے اگر بلبلیں ہزار کریں

سنائے رکھتا ہوں سب کو مری وصیت ہے
کہ تا اسی پہ عمل میرے غم گسار کریں

چراغ زیست جب اس ننگ دودماں کا ہو گل
عزیز شمع نہ روشن سر مزار کریں

ترے سوا ہے کریم اور رحیم کس کی ذات
نجات کس سے طلب ہم گناہ گار کریں

بجائے سرمہ لگائیں غبار کوچۂ یار
یہی علاج ترا چشم اشکبار کریں

ستم شعار جفا پیشہ بے مروت ہے
سراہیے جگر ان کے جو تجھ کو پیار کریں

بڑھا کے لکھیں نہ شاعر حدیث زلف رسا
ہوا ہے طول مناسب ہے اختصار کریں

در کریم سے آتی ہے متصل یہ صدا
وہ کیوں نہ پائے جسے ہم امیدوار کریں

یہ بت اٹھائیں جو قرآں بھی کعبے میں اے رندؔ
خدا سے ہم تو ہوں منکر جو اعتبار کریں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse