گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ
by نظیر اکبر آبادی

گلے سے دل کے رہی یوں ہے زلف یار لپٹ
کہ جوں سپیرے کی گردن میں جائے مار لپٹ

مزے اٹھاتے کمر بند کی طرح سے اگر
کمر سے یار کی جاتے ہم ایک بار لپٹ

ہمارے پاس وہ آیا تو کھول کر آغوش
یہ چاہا جاویں ہم اس سے بہ انکسار لپٹ

وہیں وہ دور سرک کر عتاب سے بولا
ہمارے ساتھ نہ ہو کر تو بے قرار لپٹ

ہمیں جو چاہیں تو لپٹیں نظیرؔ اب ورنہ
تو چاہے لپٹے سو ممکن نہیں ہزار لپٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse