گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
by نسیم دہلوی

گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
ہوئی تھی صلح کس مشکل سے پھر جھگڑا نکل آیا

میں اپنے شور کے صدقے کہ دیکھا آج تو اس کو
بھرا غصے میں گھر سے شوخ بے پروا نکل آیا

ندامت جو ہوئی دیں گالیاں افسانہ گویوں کو
وہ سنتے تھے کہانی ذکر کچھ میرا نکل آیا

کسی کا گھر نہیں یہ تو گلی ہے سوچ او ظالم
گھر اکتا کس لیے ہے بھول کر اس جا نکل آیا

مری تقدیر بدلی ضعف سے آواز کیا بدلی
وہ اپنے دل میں دشمن کی صدا سمجھا نکل آیا

جو سچ پوچھو تو صدقے میں تمہارے عکس عارض کے
کنول پھولے دلوں کے رنگ غنچوں کا نکل آیا

نسیمؔ ان کو جو اپنا جذب خاطر اس طرف لایا
گلے مل مل کے روئے حوصلہ دل کا نکل آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse