گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
by ریاض خیرآبادی

گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
یہ ڈالیاں ہیں کہ ہیں ڈولیاں حسینوں کی

یہ آستینیں نہیں ہیں چنی ہوئی ظالم
بلائیں لی ہیں نگاہوں سے آستینوں کی

کسی کے جلوے سر عرش چھپ نہیں سکتے
کہ دور رسن ہیں نگاہیں بلند بینوں کی

پس فنا بھی نہ خالی رہیں یہ قصر رفیع
نہ ہوں مکین تو قبریں رہیں مکینوں کی

کس انتہا کی نزاکت ہے میرے شعروں میں
نظر لگے نہ کہیں ان کو نکتہ چینوں کی

جو نیند آئے تو یوں آئے موت آئے تو یوں
ہمارے سامنے شکلیں ہوں مہ جبینوں کی

ہم اپنے ملک سخن کو وسیع کرتے ہیں
ہمیں تلاش ہے ہر دم نئی زمینوں کی

انہیں غرض مری باتیں کھڑے کھڑے سن لیں
سنیں گے بیٹھ کے وہ اپنے ہم نشینوں کی

کہاں وہ چاندنی راتیں وہ چاند کے ٹکڑے
نہ اب وہ ہم ہیں نہ شکلیں ہیں مہ جبینوں کی

اترتے ہیں نئے مضموں جو آسماں سے ریاضؔ
تلاش رہتی ہے ہم کو نئی زمینوں کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse