گلشن میں کبھی ہم سنتے تھے وہ کیا تھا زمانہ پھولوں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلشن میں کبھی ہم سنتے تھے وہ کیا تھا زمانہ پھولوں کا
by نوح ناروی

گلشن میں کبھی ہم سنتے تھے وہ کیا تھا زمانہ پھولوں کا
کلیوں سے کہانی کلیوں کی پھولوں سے فسانہ پھولوں کا

کیا موسم گل پر اترا کر ہم گائیں ترانہ پھولوں کا
دو روز میں آنے والا ہے اک روز زمانہ پھولوں کا

ایام خزاں میں اہل چمن صرصر کو ستم سے کیا روکیں
بیگانہ ہوا جب سبزہ بھی تو کون یگانہ پھولوں کا

پھر باد صبا وہ آ پہنچی پھر رنگ کھلا نکہت پھیلی
اے لوٹنے والو اب لوٹو معمور خزانہ پھولوں کا

نازاں ہے جو اپنی قسمت پر گلچیں کو یہ کیا معلوم نہیں
جائے گی بہار آئے گی خزاں بدلے گا زمانہ پھولوں کا

گلچیں سے کبھی میں سنتا ہوں بلبل سے کبھی میں کہتا ہوں
اس درد سری کا باعث ہے دلچسپ فسانہ پھولوں کا

شاخیں بھی بلائیں لیتی ہیں پتے بھی نچھاور ہوتے ہیں
اللہ رے جوانی گلشن کی اف اف رے زمانہ پھولوں کا

ایام خزاں میں اے بلبل تکلیف بہت بڑھ جائے گی
پھولوں کی قسم دیتا ہوں تجھے چھیڑ اب نہ ترانہ پھولوں کا

جب اہل چمن سو جاتے ہیں تو حسن کے ڈاکو آتے ہیں
کچھ رات گئے کچھ رات رہے لٹتا ہے خزانہ پھولوں کا

مرغان قفس کو نیند کہاں نیند آئے یہی امید کہاں
گلچیں سے انہیں سنواتا ہے صیاد فسانہ پھولوں کا

کیا ذکر چمن کیا فکر چمن کیا ذوق چمن کیا شوق چمن
داغوں سے ہمارا خانۂ دل ہے دولت خانہ پھولوں کا

کیا خوب ملی گل کھانے کی یہ داد ہمیں مر جانے پر
پھولوں میں ہمارے چھیڑ دیا بلبل نے ترانہ پھولوں کا

فطرت کے مسافر کو بس میں رکھ سکتے نہیں اشجار چمن
آتا ہے زمانہ پھولوں کا جاتا ہے زمانہ پھولوں کا

اے نوحؔ اثر اتنا تو کیا تم پر بھی چمن کے منظر نے
طوفان اٹھانا بھول گئے لے بیٹھے فسانہ پھولوں کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse