Jump to content

گلستان

From Wikisource
277937گلستانسجاد حیدر یلدرم

آج سے دس پندرہ برس کا ماجرا ہے، بحر ہند میں ایک جزیرہ تھا جو اب ناپید ہے، چاندنی رات تھی، سطح آب پر سکون مطلق طاری تھا اور اس سکون پر چاند اپنی شعاعیں ڈال رہا تھا، فضا میں خاموشی، بے پایاں سمندر، ڈراؤنی تنہائی، وحشت انگیز سکوت، کوئی صدا نہیں، کوئی اثر حیات نہیں، ایک غیر محدود مگر روشن تنہائی، ایک محشر سکون۔

یہ عالم ہے، چاند خاموشی کے ساتھ گویا سوچ رہا ہے، موجیں بھی سوچ رہی ہیں، چاند کی کرنوں کے سیلان سے بچا ہوا سایہ سوچ رہا ہے، بادلوں کے منتشر ٹکڑے سوچ رہے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہوا، اس خاموشی کا بھید چپکے چپکے سمندر کے کان میں کہنا چاہتی ہے اور نہیں کہہ سکتی، سمندر کا سینہ سانس لینے کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔ تمام موجودات میں گویا ایک کروٹ لینے خواہش معلوم ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بے پایاں سستی اور سکوت میں اگر کہیں سے ذرا سی صدا بھی آجائے تو دنیا ہنس پڑے گی، اچھل پڑے گی۔

نسریں نوش جزیرے کے دامن میں، سمندر کی ریت پر ایک سرد زرّیں کی طرح جو زمین پر گر پڑا ہو، لیٹی ہوئی تھی کہ موجوں میں کچھ حرکت پیدا ہوئی، اور وہ نسرین نوش کے عریاں جسم، چاند جیسے عریاں جسم پر، گردن پر، بالوں میں گزرنے لگیں، ادھر سلسبیل قمر اس کے بدن پر پڑ رہی تھی، ادھر چھوٹی چھوٹی موجیں ایک دوسرے کو ہٹاتی آتی تھیں اور اس سیمیں تن کے کبھی بالوں میں سے گزرتی تھیں، کبھی اس کے گورے بازوؤں سے لپٹتی تھیں، اور اس کے بوسے لے لے کر آگے چلی جاتی تھیں اور پھر لوٹ کر آتی تھیں اور بحر سے موتی لا لا کر اس کے پاؤں پر نثار کر کے نہایت تعظیم اور احترام کے ساتھ واپس جاتی تھیں۔

نسریں نوش ایک پر لطف تھکن سے، ایک بیہوش نشہ سے آہستہ آہستہ بیدار ہوئی، اس کے چاروں طرف جو پریاں ہالہ بنائے کھڑی تھیں، ان پر نظر ڈالی اور اپنے لال لبوں سے برق تبسم گرا کے کہا، ’’میری پیٹھ ملو۔‘‘ اس پر چند خدامہ تعمیل ِ حکم میں مصروف ہوئیں، اور اس کے بعد چند اور پریاں جو ریشمی تولیا، چادر وغیرہ لئے کھڑی تھیں، انھوں نے اس کے بازؤوں، سینہ اور پاؤں کو پوچھنا اور بالوں کو سکھانا شروع کیا، نسریں نوش اس شاہراہ زرّیں کو جو چاند نے اس تک بنا رکھی تھی، دیکھنے اور موجوں کی ارگن کو سننے لگی۔

اتنے میں ایک قسم کی چھوٹی پریاں، صدف بحر کی بنی ہوئی نفیر یاں اور دف اور سارنگی اور ستار غرضیکہ پورا ساز لئے ہوئے نسریں نوش کے گرد اڑنے اور ستار بجانے لگی، نسریں نوش، اٹھ کھڑی ہوئی اور ماہتاب کی طرف ہاتھ بڑھا کے اس رات کے لئے اسے’’خدا حافظ‘‘ کہا اور اپنی سہیلیوں کے کبھی کندھوں پر ہاتھ رکھ کے، کبھی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے، پھولوں سے چھپے ہوئے راستے پر نسیم کی طرح خرام ناز سے چلنا شروع کیا۔ اس وقت پھول جھک جھک کے سلام کرتے تھے، اور ایک دوسرے سے مل کر گویا تالیاں بجاتے، بنفشہ اس کے پاؤں چومنے اور روندے جانے کی تمنّا سے راستہ میں آ پڑتا تھا، نسریں نوش پانچ منٹ تک چلی ہوگی کہ ایک کاشانہ بلوّر میں داخل ہوئی۔

چاند کا عکس اس محل کی کل دیواروں اور صحن کے فوارے پر پڑتا تھا، اور اس فوارہ نور سے ایک زمزمہ، روح نواز پیدا ہو رہا تھا، حوض کے کنارے لیمو، نارنگی، ترنج کے پودے پھولوں سے لدے ہوئے دماغ کو فرحت دے رہے تھے، یہ سب ایک دستر خوان پر بیٹھ گئیں، زبر جد کے طباقوں میں طرح طرح کے کھانے اور میوے لائے گئے، خرمے، انار، انگور، سیب، شکارکے گوشت، مچھلیاں لائی گئیں، لالے کے پیالوں میں شراب، شربت گلاب پئے گئے۔ حوض کے دوسری طرف، ناچنے والیوں، گانے والیوں نے ایک حلقہ باندھا اور رباب، نرمار، بربط، ستار پر نسریں نوش کی حسن اور ادا کی تعریف میں قصیدے، غزلیں، ٹھمریاں، گانی شروع کیں۔

گانا جو ایک جوئے رواں کی طرح مسلسل تھا۔ ادھر سہیلیوں نے چھیڑ خانی شروع کی، رفتہ رفتہ لالوں، اور پھولوں کو پھینک کے لڑائی شروع ہوئی، اور تھوڑی دیر میں پھولوں سے زخم کھا کھا کے پریاں گرنے لگیں۔ لذیز شراب کے نشہ سے، نسریں نوش ہنستی ہوئی ایک سہیلی کی گود میں گر پڑی اور اپنے ہونٹ چوس چوس کر نظر اس طرح دور دور ڈالنے لگی گویا عالم خیال میں ہے، سہیلیاں اپنی مالکہ کے ہاتھ چوم چوم کے اس کے بالوں کی خوشبو سے دماغ معطر کر کر کے شراب کا ایک ایک گھونٹ پیتی تھیں۔ نشہ کا خمار چڑھنا شروع ہوا تھا کہ ناچنے والیوں کو پھر حکم ہوا۔ ساز پر پریوں کا ایک خاص ناچ، ایک رقیق، نازک، نورانی ناچ ناچا گیا۔

وہ گلابی، چمپئی، دھانی، ریشمی ساڑیاں جو پریوں کے سڈول جسموں سے لپٹی ہوئی تھیں، وہ ناچ کے چکروں میں مل کر طرح طرح کے نئے رنگ پیدا کرتی تھیں، پریاں تیزی ہلکی پرواز کی طرح اُدھر اُدھر سے اِدھر ٹھمک ٹھمک کے آتی جاتی تھیں، کبھی وہ ایک دوسرے سے ملیں کبھی علیحدہ ہوجائیں، کبھی دو کے درمیان میں سے تیسری گزر جائے، کبھی حلقہ بندھ جائے، کبھی ٹوٹ جائے، اس ملنے، جدا ہونے، چکر کھانے سے رنگ اور نور کا انحلال اور اجتماع ایسا مختلف ہوتا جیسے ہشت پہلو شیشےمیں آفتاب کی کرنیں گزر رہی ہوں، ان پریوں کا تھرک تھرک کر ملنا، پھر تتر بتر ہوجانا، شانوں کا ملنا، بالوں کا سحرِ سنبل کی طرح لہرانا، نازک کمروں کا لچکے کھانا، جھک جھک کے دہرا ہوجانا، یہ سب باتیں سلیس و بلیغ گتوں سے (جو سازندے پریاں بجا رہی تھیں) مل کر ایک نشہ آور نظر پیش کرتی تھیں کہ کان موسیقی اور رقص میں تمیز نہیں کر سکتے تھے اور آنکھ نہیں بتا سکتی تھی کہ آیا موسیقی رقص کر رہی ہے، یا رقص نغمہ ساز ہے، کیا ہو رہا ہے۔

نسریں نوش ان تمام تموجات رقص و آہنگ کو ایک سہیلی صبح خنداں کے زانو پر سر رکھے ہوئے ایک بے پروا، لاابالیانہ نگاہ سے دیکھ رہی تھی، اور ایسا نظر آتا تھا کہ وہ ان چیزوں کی طرف زیادہ ملتفت نہیں، کیونکہ اس کی نگاہ کسی دور نقطہ پر گڑی ہوئی تھی، یہ ٹیپ ٹاپ، یہ ناچ گانا، وہ رات دن دیکھتی تھی، اس لئے اس کی روح خفتہ کو جگانے یا اس کے دل میں حرکت پیدا کرنے کے لئے یہ کافی نہ تھا۔

اس رات محل میں داخل ہونے کو اس کا دل نہ چاہا! اس کی طبیعت میں چاند کو دیکھ دیکھ کر یہ امنگ پیدا ہوئی تھی کہ اس کے عریاں جسم سے جا کر لپٹ جائے۔ وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی، سہیلیوں نےاس کی طبیعت کے بہلانے کے لئے لطیفے، کہاوتیں، بوجھ، پہیلیاں کہنی شروع کیں کہ چاند اور سورج میں کیسی دوستی ہے، شہد کی مکھیاں، پھولوں سے کیا کہا کرتی ہیں، بھونرا چنبیلی کے کان میں کیا بھنبھنایا کرتا ہے، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان نورانی آنکھوں میں نیند آنی شروع ہوئی۔ اس کے نرم جسم کو سہلا سہلا کے، اس کے دماغ کو تھپکا تھپکا کر، ہلکے بادلوں کے نیچے بھاگتے ہوئے چاند کو پیش نظر کر کے، غرض کہ عجب عجب دھوکے دے دے کے، نیند اس کی آنکھوں میں چپکے سے آگئی اور ان گھنی پلکوں کو ملا دیا۔

نسریں نوش کا نیند میں جانا تھا کہ ناچ بند کر دیا گیا، لطیفے، پہیلیاں ختم ہوگئیں، نہ صرف یہ بلکہ فوارے بند ہوگئے، وہ عندلیب جو پنجرے میں بیٹھی گا رہی تھی، چپ ہو گئی، ہوا کی سنسناہٹ بند ہوگئی تاکہ نسریں نوش آرام سے سوئے، تمام رات رامش گر پریاں، سہیلیاں دبے پاؤں علیحدہ ہوگئیں، گھو نگرو آہستہ آہستہ اتار ڈالے گئے، اتنے میں سفید بازؤوں والی چھوٹی چھوٹی پریاں حلقے باندھ کے آئیں اور نسریں نوش کے گرد اڑنے لگیں۔ ان کے پروں سے کوئی آواز نہ نکلتی تھی، یہ پریاں نسریں نوش کی نگہبان تھیں۔

دو تین منٹ کے بعد ایک بڑھیا درختوں سے نکل کے جریب پٹکتی ہوئی آہستہ آہستہ نسریں نوش کے پاس آئی اور نسریں نوش کے بدن پر جو چادر ڈال دی گئی تھی، اسے چہرے پر سے ہٹا کر غور سے دیکھنے لگی، اس کے سوکھے چہرے پر آثارِ اطمینان ظاہر ہوئے، اور ’’الحمداللہ‘‘ کہہ کے جیسی آئی تھی ویسی ہی غائب ہو گئی۔ یہ نسریں نوش کی ماں تھی، اپنی لڑکی کو نہایت احتیاط، اور بدگمانی سے رکھتی تھی، اور اس طرح ہر شام کو آکر تحقیقات کرتی تھی۔

یہ معمر عورت سو چا کرتی تھی کہ ’’میرے بالوں کو سفید کرنے والے، میرے دانتوں کو گرانے والے، میرے چہرے کو خراب کرنے والے یہ مرد ہی تو ہیں، ان کے ظلم ہی تو ہیں، اپنی اولاد کو ان مصیبتوں سے بچاؤں گی، اسی لئے میں اس لڑکی کو اس جزیرے میں لائی ہوں، اسے کھیل تماشہ دل بہلاوے، ہنسی دل لگی، آرائش و نمائش سب کچھ دوں گی، لیکن مرد کیا شے ہے، یہ نہ جاننے دوں گی۔ وہ فلاکت جس کا نام مرد ہے اس کے قریب نہ جانے دوں گی۔ لیکن اگر ڈر ہے تو اتنا کہ مجھے اطلاع ہوئے بغیر اس جزیرے میں کوئی مرد نہ آ جائے، بہر حال اس وقت تو میری کل تدبیریں مکمل ہیں اور میرے دل کو اطمینان ہے۔‘‘

ماہتاب، دھیما ہو ہوکے غائب ہوگیا، مگر نسریں نوش کے جسم نازک کو طلوع آفتاب کے سپرد کرتا گیا، سفید بازؤوں والی نگہبان پریاں ہٹ گئیں اور ان کے بجائے سہیلیاں اور گانے والیاں آگئیں جنھوں نے نرم و نازک آواز سے اسے جگانے کے لئے پیاری راگنیاں گانا شروع کیں، تھوڑی دیرمیں نسریں نوش نے اپنی مخمور آنکھیں کھول دیں، اور انگڑائیاں لیتی ہوئی اور اپنے پریشان بالوں کو سنوارتی ہوئی اٹھ بیٹھی، پھر ایک صاف شفاف نہر کے کنارے نیلوفر کے پھولوں کی ایک چوکی پر جاکر بیٹھ گئی۔ پریاں بھی آکر اس کے گرد جمع ہوگئیں۔ مشاطہ پریوں نے نسریں نوش کا سنگار کیا، نسریں نوش نہر کے صاف پانی میں اپنے عکس جمال کو دیکھ رہی تھی، تیتریاں ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی اڑ رہی تھیں، نہر کی روانی سے نرم صدا پیدا ہو رہی تھی، سہیلیوں نے پھر ہنسی کی باتیں شروع کیں، جن کو سن سن کر وہ پیارے باریک ہونٹ تبسم میں کھل کھل جاتے تھے۔

سہیلیوں اور خادمہ پریوں کے نام گلؔ چکاں، زہرہ جبیں، نازؔ آفریں، موجؔ نور، بعضوں کے نام پھولوں پر مثلاً نیلوفر، سوسنؔ وغیرہ، بعضوں کے پرندوں کے اوپر، مثلاً طاؤسؔ خرام، کبکؔ ادا وغیرہ تھے۔ اور ان سب کے نام اور عنوان کے مناسب ان کا لباس تھا۔

سنگار کے بعد، اس صبح کے لئے ایک خاص رنگ کا لباس پہن کر نسریں نوش نیلوفر کے پتوں کی کشتی میں بیٹھ کر سہیلیوں کے ساتھ تھوڑی دور تک نہر میں گئی، پھر یہ سب کناریں پر پہنچیں، جہاں بّلور اور پھولوں کی ایک بگھی تیار کھڑی تھی، اس بگھی میں دو مادہ سیمرغ جتی ہوئی تھیں اور اس انتظار میں کہ ان کی مالکہ بگھی پر سوار ہوگی آمادہ روانگی کھڑی تھیں۔ جوئے رواں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نسریں نوش گاڑی میں سوار ہوئی، اور بوئے رواں کو اپنے پاس بٹھا کر ’’دیار گل‘‘ کو چلنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے سنتے ہی چند چھوٹی چھوٹی پریوں نے جو چھوٹے چھوٹے بگل لئے کھڑی تھیں، کوچ کا بگل بجایا۔ اور اس تزک و احتشام کے ساتھ سواری روانہ ہوئی۔ سامنے طاؤس، کبوتر، قمریاں، طوطی ناچتے، ہوا میں اڑان بھرتے، گاتے چہچہاتے اور طرح طرح کے تماشہ کرتے جاتے تھے۔ سڑک پر پھول کی پتیاں، گلال اور چاندی کے ذرّے بکھرے ہوئے تھے جو پہیوں کے چلنے سے اڑ اڑ کر گاڑی کے بلوّری پہیوں میں پرندوں کے پروں میں جم جاتے تھے، اور اس قافلے پر قوس قزح کا رنگ پیدا ہو جاتا تھا۔

آفتاب افق سے اپنے نورانی بالوں کو سنوارتا ہوا، کچھ اونچا ہوا تھا، کہ یہ قافلہ اس بلدہ شعر و خیال میں جسے نسریں نوش نے ’’دیارِ گل‘‘ کہا تھا، پہنچا۔ یہاں کی وادی حقیقتاً وادی گل تھی، نسریں نوش کی تشریف آوری کی خوشی میں تمام غنچے ایک دم کھل گئے اور ان کی خوشبو نکل نکل کے اس کےجسم کو، کندھوں کو، چہرے کو احاطہ کرکے چومنے لگی۔ نسریں نوش گاڑی پر سے اتری۔ اتنے میں سہیلیاں، نوکرانیاں، اور ساز ندے وغیرہ بھی پہنچ گئے۔ اب نسریں نوش نے اس زمان و مکانِ لطافت میں آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا، سہیلیاں تعظیم اور احترام کے انداز سے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں، اونچے درخت بھی اس ملکہ ملاحت کے سامنے جھک جھک کر اس کی خدمت میں پھول پیش کرتے تھے، اور نسریں نوش ان پھولوں کو اپنے ان پیارے ہاتھوں سے (جن میں اور پھولوں میں صرف اس قدر فرق تھا کہ یہ پھولوں سے زیادہ خوبصورت تھے) چھو چھو کر سہیلیوں کو ایک عظمت آمیز نیم غمزہ سے حکم کرتی تھی کہ’’انھیں توڑو۔‘‘ زہرہؔ جبیں، گل چکاں کی گودان پھولوں سے بھر گئی، ان پھولوں کا ایک تاج بنایا گیا، جسے نسریں نوش نے پہنا۔

غرضیکہ اس طرح، نسیم صبح کے ساتھ اور نسیم صبح کی مانند سب آہستہ آہستہ چل کے ایک اونچے موقع پر پہنچیں جو مطلع آفتاب کے مقابل تھا۔ نسریں نوش کھڑی ہوکر آفتاب کی طرف جھکی اور سیدھی ہو گئی۔ زاں بعد اپنے ہاتھ کو چوم کر گویا ایک بوسہ بھیجا، یہ ایک آئین آفتاب پرستی تھا۔ اس بوسہ کے بھیجتے ہی سہیلیاں ہنس ہنس کے، دوڑ دوڑ کر، ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کے، بالوں میں پھول لگا کے، ہاتھوں میں پھولوں کے پنکھے ہلا ہلا کے، نازک کمروں میں بل دے دے کر، آنکھوں کو شرارت سے پھر پھرا کے، نسریں نوش کے گرد چکر لگانے لگیں۔ پھر کھڑی ہوکر آفتاب کی شان میں گانے گانے لگیں، پھر ان سب نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کبھی ہوا میں اڑ کر، کبھی زمین پر پاؤں مار کے آفتاب کے لئے ایک مستانہ ناچ ناچا، اور ایک دل ربا گانا گایا، اس گلبانگ رقص و آہنگ کی لطافت میں درخت بھی جھوم جھوم کے، نسیم آہستہ آہستہ چل کے شریک ہوئی، پھول، درخت، ہوا، سب حالتِ وجد میں آگئے۔

نسریں نوش اس نشہ شعر کی کیفیت سے لذت یاب معلوم ہوتی تھی، اور اس آئین آفتاب پرستی میں دل سے شریک تھی، آخر میں اس کو ختم کیا، لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے ختم کرنے پر پریاں دل سے راضی نہیں تھیں کیونکہ آئین ختم ہوتے ہی درختوں کی شاخوں میں پھولوں میں بنے ہوئے جھولے ڈالے، اور اڑ اڑ کے ایک جھولے سے دوسرے جھولے پر جانا، جھولنا، ہنسنا اور کودنا اچھلنا شروع کیا۔ ایک مدت تک اس طریقہ سے وقت گذرا۔ آخر کار نسریں نوش پھر گاڑی پر سوار ہوئی اور اسی انتظام کے ساتھ واپس ہو کر کا شانہ بلور میں جو دسترخوان کھانوں سے حاضر تھا، اس پر معہ سہیلیوں کے بیٹھی۔

غرضیکہ دن اس طرح گذرتے تھے۔ اکثر نسریں نوش صبح کے کھانے کے بعد قیلولہ کرتی تھی، اور تیسرے پہر کو شکار کے لئے نکلتی تھی، نازک پیارے ہاتھوں میں تیر کمان لے کر کبھی کبھی مشق تیر اندازی کرتی تھی، کبھی غروب آفتاب کے قریب ساحل بحر پر غسل کے لئے جاتی تھی اور تیر اندازی کے بعد تھکن اتارنے کے لئے گلاب یا بنفشہ کا ابٹن مل کے سمندر میں نہاتی تھی، رات کو سہیلیوں کو بلاکے گانا، پہیلیاں، کہانی وغیرہ سے دل بہلاتی تھی، کبھی کوئی بحث شروع ہو جاتی اور یہ زمزمہ مکالمہ کبھی پر حدت ہو جاتا، گویا ساز زور سے بجا، کبھی آہستہ آہستہ باتیں ہوتے ہوتے خاموشی طاری ہوجاتی، گویا بادِ نسیم پھولوں میں ہلکے ہلکے چل کے رک گئی، چاندنی رات ہوتی تو ایک دو سہیلیاں ساتھ لے کر سیر کو نکل جاتی، اس وقت نسریں نوش کا چلنا، اس لہر کے پانی کی مانند ہوتا تھا، جو بلوّر کی زمین پر بہہ رہی ہو اور جس کے پانی معطؔر نسیم جنبش دے رہی ہو، جس کے کنارے پھول کھلے ہوں، اور بلبلیں اڑ رہی ہوں۔

نسریں نوش پانچ برس کی تھی جب اس جزیرے میں پہلے پہل آئی، تیرہ برس سے اس طرح، خوشبوؤں میں، آرام میں، ناز و نعم میں، بے فکریوں میں لاڈپیار میں، زندگی بسر کر رہی ہے، اور مجہول غیر تبسم خیالات میں مستغرق رہ کر، دن ہنسی کے ساتھ، اور رات متبسم خواب میں گذارتی ہے۔ لیکن ایک صبح خلاف معمول اس کے دل میں ایک جلن محسوس ہوئی، اٹھی، کا شانہ بلوّر کے قریب جو نہر بہتی تھی اس تک گئی، اور نہر کے اندر جا کر لیٹ گئی اور دیر تک اس میں بے حرکت پڑی رہی، پھر نکل کے اور بدن کو سکھا کے سفید ریشمی بستر پر جا لیٹی۔

نسریں نوش پر ایک سخت نیند غالب ہوئی اور وہ شام تک سوتی رہی، یہاں تک کہ سورج ڈھلا، سورج کی شعاعیں اس پرآکر پڑیں اور وہ جاگی، اس وقت اس کی طبیعت ایک ایسی شے چاہتی تھی، ایک ایسے مبہم وجود کی آرزو کر رہی تھی جو اس کے بازؤوں کو پکڑے، کمر کو سنبھالے، اس کے جسم کو اٹھا لے، ایک غیر معنی تمنّا اس کے دل میں پیدا ہو رہی تھی، اور اس کا دل چاہتا تھا کہ ایک ذات، ایک وجود آئے، جو اس پر قادر ہو، جو اس پر حاوی ہو۔

اس نے دیکھا کہ اس کے پاس ایک سفید براق ہنس پھر رہا ہے، اسے ہی اس نے گود میں لے لیا، اور اس کے سفید سینے کو اپنے دھڑکتے ہوئے سینے سے لگا لیا، اور اس کی گردن کو اپنی گردن سے ملا دیا، اور اپنی تمام قوت سے اسے بھیچنا شروع کیا، اور اس طرح پرندے کے نرم پروں میں اپنی آنکھوں کو کچھ کھولے، کچھ بند کئے بدن کو جھکائے دیر تک بے حرکت پڑی رہی۔

نسریں نوش ان خوشبوؤں سے، ان رنگوں سے، ان پھولوں سے، ان کھیل تماشوں سے اکتا گئی تھی، اور ان سے چھٹکارا چاہتی تھی، اب پھولوں کا اس پر نثار ہونا، اس کی روح کو مشغول نہ کرتا تھا۔ ناچنے والیوں کے ناچاور عشوے اور غمزے اس کے دل کو نہ بہلاتے تھے، سہیلیوں کا اس کے بدن کو ملنا، اسے آرام نہ دیتا تھا، وہ ایک شے تلاش کرتی تھی، اسے وہ نہیں جانتی تھیکہ وہ کیا ہوگی اور کیا نہ ہوگی۔ ایک مبہم چیز چاہتی تھی جو اسے دکھ دے، اس کے دل میں درد پیدا کرے، احساس پیدا کرے، اسے مسل ڈالے، ایک ایسی پر قوت، پر جراتؔ شے کے باوجود اس کے حسن و جمال کے، باوجود اس کے کہ وہ جزیرے کی ملکہ تھی، اس سے نہ دبے، اس کے رعب میں نہ آئے، بلکہ اسے پکڑے، اسے مارے، ٹکڑے کر ڈالے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.