گلزار وطن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلزار وطن
by سرور جہاں آبادی

پھولوں کا کنج دل کش بھارت میں اک بنائیں
حب وطن کے پودے اس میں نئے لگائیں
پھولوں میں جس چمن کے ہو بوئے جاں نثاری
حب وطن کی قلمیں ہم اس چمن سے لائیں
خون جگر سے سینچیں ہر نخل آرزو کو
اشکوں سے بیل بوٹوں کی آبرو بڑھائیں
ایک ایک گل میں پھونکیں روح شمیم وحدت
اک اک کلی کو دل کے دامن سے دیں ہوائیں
فردوس کا نمونہ اپنا ہو کنج دل کش
سارے جہاں کی جس میں ہوں جلوہ گر فضائیں
چھایا ہو ابر رحمت کاشانۂ چمن میں
رم جھم برس رہی ہوں چاروں طرف گھٹائیں
مرغان باغ بن کر اڑتے پھریں ہوا میں
نغمے ہوں روح افزا اور دل ربا صدائیں
حب وطن کے لب پر ہوں جاں فزا ترانے
شاخوں پہ گیت گائیں پھولوں پہ چہچہائیں
چھائی ہوئی گھٹا ہو موسم طرب فزا ہو
جھونکے چلیں ہوا کے اشجار لہلہائیں

اس کنج دل نشیں میں قبضہ نہ ہو خزاں کا
جو ہو گلوں کا تختہ تختہ ہو اک جناں کا
بلبل کو ہو چمن میں صیاد کا نہ کھٹکا
خوش خوش ہو شاخ گل پر غم ہو نہ آشیاں کا
حب وطن کا مل کر سب ایک راگ گائیں
لہجہ جدا ہو گرچہ مرغان نغمہ خواں کا
ایک ایک لفظ میں ہو تاثیر بوئے الفت
انداز دل نشیں ہو ایک ایک داستاں کا
مرغان باغ کا ہو اس شاخ پر نشیمن
پہنچے نہ ہاتھ جس تک صیاد آسماں کا
موسم ہو جوش گل کا اور دن بہار کے ہوں
عالم عجیب دل کش ہو اپنے گلستاں کا
مل مل کے ہم ترانے حب وطن کے گائیں
بلبل ہیں جس چمن کے گیت اس چمن کے گائیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse