گلزار نسیم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلزار نسیم
by دیا شنکر نسیم

ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری

کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر
حمد حق و مدحت پیمبر

پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی کہ مطیع پنج تن ہے

ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی
کرتا ہے زباں کی پیش دستی

خواستگاری جناب باری سے مثنوی گلزار نسیم کی ترتیب کے واسطے
یارب! میرے خامے کو زباں دے

منقار ہزار داستاں دے
افسانہ گل بکاولی کا

افسوں ہو بہار عاشقی کا
ہر چند سنا گیا ہے اس کو

اردو کی زباں میں سخن گو
وہ نثر ہے، داد نظم دوں میں

اس مے کو دو آتشہ کروں میں
ہر چند اگلے جو اہل فن تھے

سلطان قلمروسخن تھے
آگے ان کے فروغ پانا:

سورج کو چراغ ہے دکھانا
پر، عجز سخن سدا ہے باقی

دریا نہیں کار بند ساقی
طعنے سے زبان نکتہ چیں روک

رکھ لے مری اہل خامہ میں نوک
خوبی سے کرے دلوں کو تسخیر

نیرنگ نسیم باغ کشمیر
نقطے، ہوں سپند خوش بیانی

جدول، ہو حصار بحر خوانی
جو نکتہ لکھوں کہیں نہ حرف آئے

مرکز پہ کشش مری پہنچ جائے
داستان تاج الملوک شاہ زادے اور زین الملوک باشاہ مشرق کی

روداد زمان پاستانی
یوں نقل ہے خامے کی زبانی

پورب میں ایک تھا شہنشاہ
سلطان زین الملوک ذی جاہ

لشکر کش و تاج دار تھا وہ
دشمن کش و شہر یار تھا وہ

خالق نے دیے تھے چار فرزند
دانا، عاقل، ذکی، خردمند

نقشہ ایک اور نے جمایا
پس ماندہ کا پیش خیمہ آیا

امید کے نخل نے دیا بار
خورشید حمل ہوا نمودار

وہ نور کہ صدقے مہرانور
وہ رخ کہ نہ ٹھہرے آنکھ جس پر

نور آنکھ کا کہتے ہیں پسر کو
چشمک تھی نصیب اس پدر کو

خوش ہوتے ہی طفل مہ جبیں سے
ثابت یہ ہوا ستارہ بیں سے

پیارا یہ وہ ہے کہ دیکھ اسی کو
پھر دیکھ نہ سکیے گا کسی کو

نظروں سے گرا وہ طفل ابتر
مانند سر شک دیدہ تر

پردے سے نہ دایہ نے نکالا
پتلی سا نگاہ رکھ کے پالا

تھا افسر خسرواں وہ گل فام
پالا، تاج الملوک رکھ نام

جب نام خدا جواں ہوا وہ
مانند نظرواں ہوا وہ

آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پدرنے ناگاہ

صاد آنکھوں کے دیکھ کے پسر کی
بینائی کے چہرے پر نظر کی

مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشمک پوشی

دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کے بھائی

ہر چند کے بادشاہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا

گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دیدہ کور

آیا کوئی لے کے نسخہ نور
لایا کوئی جاکے سرمۂ طور

تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینہ نہ ہوا وہ دیدہ کور

ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے، جس طرح نبا ہے

جانا چاروں شاہ زادوں کا بہ تجویز کحال تلاش گل بکاولی کو
پایا جو سفید چشم صفحا

یوں میل قلم نے سرمہ کھینچا
تھا اک کحال پیر دیریں

عیسی کی تھیں اس نے آنکھیں دیکھیں
وہ مرد خدا بہت کراہا

سلطاں سے ملا، کہا کہ شاہا!
ہے باغ بکاولی میں اک گل

پلکوں سے اسی پہ مار چنگل
خورشید میں یہ ضیا کرن کی

ہے مہر گیا اسی چمن کی
اس نے تو گل ارم بتایا

لوگوں کو شگوفہ ہاتھ آیا
شہ زادے ہوئے وہ چاروں تیار

رخصت کیے شہ نے چار ناچار
شاہانہ چلے وہ لے کے ہمراہ

لشکر، اسباب، خیمے، خرگاہ
وہ بادیہ گرد خانہ برباد

یعنی تاج الملوک ناشاد
میدان میں خاک اڑا رہا تھا

دیکھا تو وہ لشکر آرہا تھا
پوچھا تم لوگ خیل کے خیل

جاتے ہو کدھر کو صورت سیل؟
بولا لشکر کا اک سپاہی

جاتی ہے ارم کو فوج شاہی
سلطاں زین الملوک شہ زور

دیدار پسر سے ہوگیا کور
منظور علاج روشنی ہے

مطلوب گل بکاولی ہے
گل کی جو خبر سنائی اس نے

گلشن کی ہوا سمائی اس کو
ہمرہ کسی لشکری کے ہوکر

قسمت پہ چلا یہ نیک اختر
غلام ہونا چاروں شاہ زادوں کا چوسر کھیل کر دلبر بیسوا سے

نقطوں سے قلم کی مہر ہ بازی
یوں لاتی ہے رنگ بد طرازی


یک چند پھرا کیا وہ انبوہ

صحرا صحرا و کوہ در کوہ
بلبل ہوئے سب ہزار جی سے

گل کا نہ پتا لگا کسی سے
وارد ہوئے ایک جگہ سر شام

فردوس تھا اس مقام کا نام
اک نہر تھی شہر کے برابر

ٹھٹکے سیارے کہکشاں پر
اک باغ تھا نہر کے کنارے

جویاے گل اس طرف سدھارے
دلبر نام ایک بیسوا تھی

اس ماہ کی واں محل سرا تھی
دروازے سے فاصلے پہ گھر تھا

نقارہ چو بدار در تھا
بے جا و بجا نہ سمجھے ان جان

نقارہ بجا کے ٹھہرے نادان
آواز پہ وہ لگی ہوئی تھی

آپ آن کے ٹھاٹھ دیکھتی تھی
جس شخص کو مال دار پاتی

باہر سے اسے لگا کے لاتی
بٹھلا کے، جوے کا ذکر اٹھا کر

چوسر میں وہ لوٹتی سراسر
جیت اس کی تھی، ہاتھ جو کچھ آتا

اس کا کوئی ہتکھنڈا نہ پاتا
بلی کا سر چراغ داں تھا

چوہا پاسے کا پاسباں تھا
الٹاتے اڑی پہ، قسمت آسا

بلی، جو دیا موش، پاسا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں

قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں
صیادنی لائی پھانس کر صید

کرسی پہ بٹھائے نقش امید
گھاتیں ہوئیں دل ربائیوں کی

باتیں ہوئیں آشانائیوں کی
رنگ اس کا جما، تو لا کے چوسر

کھیلی وہ کھلاڑ بازی بد کر
وہ چھوٹ پہ تھی، یہ میل سمجھے

بازی چوسر کی کھیل سمجھے
مغرور تھے مال و زر پہ کھیلے

ساماں ہارے تو سر پہ کھیلے
بدبختی سے آخر جوا تھا

بندہ ہونا بدا ہوا تھا
دو ہاتھ میں چاروں اس نے لوٹے

پنچے میں پھنسے تو چھکے چھوٹے
ایک ایک سے رات بھر نہ چھوٹا

پوپھٹتے ہی جگ ان کا ٹوٹا
زنداں کو چلے مچل مچل کر

نردوں کی طرح پھرے نہ چل کر
لشکر میں سے جوگیا سوئے شہر

پانی سا پھرا نہ جانب نہر
جیتنا تاج الملوک کا دلبر بیسوا کو اور چھوڑ کر روانہ ہونا تلاش گل بکاولی میں

لانا زر گل جو ہے ارم سے
یوں صفحے سے نقش ہے قلم سے

وہ ریگ رواں کا گرد لشکر
یعنی تاج الملوک ابتر

حیران ہوا کہ یا الٰہی!
لشکر پہ یہ کیا پڑی تباہی

اٹھا کہ خبر تو لیجے چل کر
گزرا در باغ بیسوا پر

حیران تھا یہ بلند پایہ
نکلی اندر سے ایک دایہ

لڑکا کوئی گھو گیا تھا اس کا
ہم شکل یہ مہ لقا تھا اس کا

بولی وہ کہ نام کیا ہے تیرا
فرزند اسی شکل کا تھا میرا

بولا وہ کہ نام تو نہیں یاد
طفلی میں ہوا ہوں خانہ برباد

لیکن یہ میں جانتا ہوں دل گیر
مادر تھی مری بھی ایسی ہی پیر

بیٹا وہ سمجھ کے جی سے اس کو
گھر لائی ہنسی خوشی سے اس کو

چلتے تھے ادھر سے دو جواری
ایک ایک کی کر رہا تھا خواری

کہتے تھے: فریب دو گے کیا تم
شہ زادے نہ ہم، نہ بیسوا تم

ذکر اپنے برادروں کا سن کر
بولا وہ عزیز، سن تو مادر!

کون ایسی کھلاڑ بیسوا ہے
شہ زادوں کو جس نے زچ کیا ہے؟

بولی وہ کہ ہاں جوا ہے بدکام
دلبر اک بیسوا ہے خود کام

بلی پہ چراغ رکھ کےشب کو
چوسر میں وہ لوٹتی ہے سب کو

پاسے کی ہے کل چراغ کے ساتھ
وہ بلی کے سر، یہ چوہے کے ہاتھ

شہ زادے کہیں کے تھے بد اقبال
بندے ہوئے، ہار کر زر و مال

بھائی، جوش خوں کہاں جائے
صدمہ ہوا، درد سے کہا ہائے!

پاسے کا، چراغ کا الٹ پھیر
سوجھا نہ اانھیں، یہ دیکھو اندھیر

سوچا وہ کہ اب تو ہم ہیں آگاہ
جیتے ہیں، تو جیت لیں گے ناگاہ

اک بلی جھپٹی چوہے کو بھانپ
نیولے تے بھگا دیا دکھا سانپ

سمجھا وہ کہ ہے شگوں نرالا
نیولا پکڑ آستیں میں پالا

چوسر ہی کے سیکھنے کو اکثر
گھوما وہ بہ رنگ نرد گھر گھر

اک روز اسے مل گیا امیر ایک
وہ صاحب جاہ دل سے تھا نیک

اشراف سجمھ کے لے گیا گھر
بخشا اسے اسپ و جامہ و زر

اس گل کے ہاتھ میں جو زر آیا
جاں بازی کو سوے دلبر آیا

ملتی تھی کھلاڑ ڈنکے کی چوٹ
نقارہ و چوب میں چلی چوٹ

آواز وہ سن کے در پر آئی
ہمرہ اسے لے کے اندر آئی

کام اس کا تھا بس کہ کھیل کھانا
چوسر کا جما وہ کارخانہ

وہ چشم و چراغ بیسوا کے
کرنے لگے تاک جھانک آ کے

نیولا، کہ وہ مار آستیں تھا
چٹکی کے بجاتے ہی وہیں تھا

بلی تو چراغ پا تھی خاموش
بل ہو گیا موش کو فراموش

ہنس ہنس کے حریف نے رلایا
مانند چراغ اسے جلایا

بارے بہ ہزار بددماغی
لی خضر نے غول سے چراغی

پا سے چلی نہ جعل سازی
اجڑی وہ، بسا بسا کے بازی

سب ہار کے نقد و جنس، بارے
جیتے ہوئے بندے بد کے ہارے

بنیاد جو کچھ تھی، جب گنوائی
تب خود وہ کھلاڑ، مہرے آئی

پھر پاسے کی نہ پاس داری
ہمت کی طرح وہ دل سے ہاری

پاسے کی بدی ہے آشکارا
راجانل سلطنت ہی ہارا

دانا تو کرے کب اس طرف میل
ہارا ہے جوے کے نام سے بیل

ہارے، دیکھا جو بیسوا نے
بندہ کیا غیر کا خدا نے

سوچی کہ نہ اب بھی چال رہیے
شادی کا مزہ نکال رہیے

بولی نہ ہزار عجز و زاری
تم جیتے میاں میں تم سے ہاری

لونڈی ہوں، نہیں عدول مجھ کو
خدمت میں کرو قبول مجھ کو

بولا وہ کہ سن، یہ ہتکھنڈے چھوڑ
نقارہ در کو چوب سے توڑ

یہ مال، یہ زر، یہ جیتے بندے
یوں ہی یہیں رکھ بجنس چندے

بالفعل ارم کو جاتے ہیں ہم
انشاء اللہ آتے ہیں ہم

بولی وہ۔ سنو تو بندہ پرور!
گلزار ارم ہے پریوں کا گھر

انسان و پری کا سامنا کیا!
مٹھی میں ہوا کا تھا منا کیا!

شہ زادہ ہنسا، کہا کہ دلبر!
کچھ بات نہیں، جو رکھیے دل پر

انسان کی عقل اگر نہ ہو گم
ہے چشم پری میں جاے مردم

یہ کہہ کے اٹھا، کہا کہ لو جان!
جاتے ہیں، کہا: خدا نگہ بان!

دولت تھی اگر چہ اختیاری
پا مردی سے اس پہ لات ماری

جز جیب، نہ مال پر پڑا ہاتھ
جز سایہ، نہ کوئی بھی لیا ساتھ

درویش تھا بندۂ خدا وہ
اللہ کے نام پر چلا ہو

پہنچنا تاج الملوک کا سرنگ کھدواکر باغ بکاولی میں اور گل لے کر پھرنا
کرتا ہے جو طے سواد نامہ

یوں حرف، ہیں نقش پاے خامہ
وہ دامن دشت شوق کا خار

یعنی تاج الملوک دل زار
اک جنگلے میں جا پڑا جہاں گرد

صحراے عدم بھی تھا جہاں، گرو
سایے کو پتا نہ تھا شجر کا

عنقا تھا، نام جانور کا
مرغان ہوا تھے ہوش راہی

نقش کف پا تھے ریگ ماہی
وہ دشت کہ جس میں پر تگ و دو

یا ریگ رواں تھی یا وہ رہ رو
ڈانڈا تھا ارم کے بادشاہ کا

اک دیو تھا پاسباں بلا کا
دانت اس کے: گور کن قضا کے

دو نتھنے: رہ عدم کے ناکے
سر پر پایا بلا کو اس نے

تسلیم کیا قضا کو اس نے
بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک

فاقوں سے رہا تھا پھانک کر خاک
بے ریشہ یہ طفل نوجواں تھا

حلوا بے دود بے گماں تھا
بولا کہ چھکوں گاہیں یہ انساں

اللہ اللہ! شکر، احساں!
شہ زادہ کہ منہ میں تھا اجل کے

اندیشے سے رہ گیا دہل کے
پل مارنے کی ہوئی جو دیری

سبحان اللہ شان تیری!
اشتر کئی جاتے تھے ادھر سے

پر آردو روغن و شکر سے
وہ دیو لپک کے مار لایا

غراتے ہوئے شکار لایا
اونٹوں کی جو لو تھیں دیو لایا

دم اس کا نہ اس گھڑی سمایا
تیورا کے وہیں وہ بار بر دوش

بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش
چاہا اس نے کہ مار ڈالو

یا بھاگ سکو تو راستہ لو
وہ اونٹ تھے کاروانیوں کے

سب ٹھاٹھ تھے میہانیوں کے
میدہ بھی، شکر بھی، گھی بھی پایا

خاطر میں یہ اس بشر کی آیا
میٹھا اس دیو کو کھلاؤ

گڑ سے جو مرے، تو زہر کیوں دو
حلوے کی پکا کے اک کڑھائی

شیرینی دیو کو چڑھائی
ہر چند کہ تھا وہ دیو کڑوا

حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا
کہنے لگا: کیا مزہ ہے دل خواہ!

اے آدمی زاد واہ وا واہ!
چیز اچھی کھلائی تو نے مجھ کو

کیا اس کے عوض میں دوں میں تجھ کو
بولا وہ کہ پہلے قول دیجے

پھر جو میں کہوں، قبول کیجے
وہ ہاتھ پر اس کے مار کر ہاتھ

بولا کہ ہے قول جان کے ساتھ
بولا وہ کہ قول اگر یہی ہے

بد عہدی کی پر نہیں سہی ہے
گلزار ارم کی ہے مجھے دھن

بولا وہ: ارے بشر وہ گلبن!
خورشید کے ہم نظر نہیں ہے

اندیشے کا واں گزر نہیں ہے
واں موج ہوا: ہوا پہ اژدر

واں ریگ زمیں: زمیں پہ اخگر
ہوتا نہ جو قول کا سہارا

بچتانہ یہیں تو خیر، ہارا
رہ جا، میرا بھائی ایک ہے اور

شاید کچھ اس سے بن پڑے طور
اک ٹیکرے پر گیا، بلایا

وہ مثل صدائے کوہ آیا
حال اس سے کہا کہ قول ہارا

ہے پیر، یہ نوجواں ہمارا
مشتاق ارم کی سیر کا ہے

کوشش کرو، کم خیر کا ہے
حمالہ نام دیونی ایک

چھوٹی بہن اس کی تھی بڑی نیک
خط اس کو لکھا بہ ایں عبارت

اے خواہر مہرباں! سلامت
پیارا ہے یہ میرا آدمی زاد

رکھیو اسے، جس طرح مری یاد
انسان ہے، چاہے کچھ جو سازش

مہمان ہے، کیجیو نوازش
خط لے کے، بشر کو لے اڑا دیو

پہنچا حمالہ پاس بے ریو
بھائی کا جو خط بہن نے پایا

بھیجے ہوئے کو گلے لگایا
اس دیونی پاس اک حسیں تھی

زنبور کے گھر میں انگبیں تھی
محمودہ نام، دخت آدم

لے ائی تھی دیونی دے کے دم
جوڑا ہم جنس کے ہاتھ آیا

محمودہ کے گلے لگایا
دن بھر تو الگ تھلگ ہی تھے وہ

دو وقت سے شام کو ملے وہ
تھے ضببط و حیا کے امتحاں میں

پردہ رہا ماہ میں، کتاں میں
آپس میں کھلے نہ شرم سے وہ

خاطر کی طرح گرہ رہے وہ
بولا وہ فسردہ دل سحر گاہ

کیا سرد ہوا ہے واہ وا واہ!
بولی وہ کہ ہونے کو ہوا ہے

جو غنچے کو گل کرے، صبا ہے
بولا وہ، یہی تو چاہتا ہوں

گل پاؤں، تو میں ابھی ہوا ہوں
پیراہن گل کی بو، تھی مطلوب

یوسف نے کہا وہ حال یعقوب
اول کہی بد نگاہی اپنی

بعد اس کے وہ سب تباہی اپنی
کھولی تھی زبان منہ اندھیرے

کہتے سنتے اٹھے سویرے
پوچھا حمالہ نے: میری جان!

ہم جنس ملا، نکالے ارمان
بولی وہ کہ کہتے آتی ہے شرم

دل سرد رہا، بغل ہوئی گرم
ناکامی کے جب وہ طور سمجھی

وہم اس کو ہوا، کچھ اور سمجھی
پوچھا کہ بتا تو درد، لیکن

تم چاہو، تو ہے دوا بھی ممکن
وہ بولی: جو تو کہے زباں سے

تارے لے آؤں آسماں سے
چہرے کو چھپا کے زیر چادر

محمودہ نے کہا کہ مادر!
باپ اس کا ہے اندھے پن سے مجہول

مطلوب بکاولی کا ہے پھول
دل داغ اس کا براے گل ہے

نرگس کے لیے ہواے گل ہے
ساعی تھی بہ دل یہ کہنے والی

راہ اس نے سرنگ کی نکالی
دیووں کہا کہ چوہے بن جاؤ

تا باغ ارم سرنگ پہنچاؤ
سن حاجت نقب بہر گل گشت

کترا چوہوں نے دامن دشت
پوشیدہ زمیں کے دل میں کی راہ

حد باندھ کے، خوش پھرے اسی راہ
جب مہر تہ زمیں سمایا

اس نقب کی رہ وہ آدم آیا
صحن چمن ارم میں اک جا

بوٹا سا تہ زمیں سے نکلا
کھٹکا جو نگاہ بانوں کا تھا

دھڑکا یہی دل کا کہہ رہا تھا
گوشے میں کوئی لگا نہ ہووے!

خوشہ کوئی تاکتا نہ ہووے!
گو باغ کے پاسباں غضب تھے

خوابیدہ بہ رنگ سبزہ سب تھے
نرگس کی کھلی نہ آنکھ یک چند

سو سن کی زباں خدانے کی بند
خوش قدر وہ چلا گل وہ سمن میں

شمشاد رواں ہوا چمن میں
ایوان بکاولی جدھر تھا

حوض آئنہ دار بام و در تھا
رکھتا تھا وہ آب سے سوا تاب

چندے خورشید، چندے مہتاب
پھول اس کا، اندھے کی دوا تھا

رشک جام جہاں نما تھا
پانی کے جو بلبلوں میں تھا گل

پہنچا لب حوض سے نہ چنگل
پوشاک اتار، اتر کے لایا

پھولا نہ وہ جامے میں سمایا
گل لے کے بڑھا ایاغ برکف

چوری سے چلا چراغ برکف
بالا دری واں جو سوتے کی تھی

سو خواب گہہ بکاولی تھی
گول اس کے ستوں: تھے ساعد حور

چلمن: مژگان چشم مخمور
دکھلاتا تھا وہ مکان جادو

محراب سے ، درسے چشم و ابرو
پردہ جو حجاب سا اٹھایا

آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی

چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی

برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی
لپٹے تھے جو بال کروٹوں میں

بل کھا گئی تھی کمر، لٹوں میں
چاہا کہ بلا گلے لگائے

سوتے ہوئے فتنے کو جگائے
سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی

ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی
یہ پھول، انھی اژدہوں کا ہے من

یہ کالے، چراغ کے ہیں دشمن
گل چھن کے، ہنسی نہ ہوئے بلکل

خندہ نہ ہو برق حاصل گل
پھر سمجھیں گے، ہے جو زندگانی

کچھ نام کو رکھ چلو نشانی
انگشتری اپنی اس سے بدلی

مہر خط عاشقی سندلی
آہستہ پھر وہ سر و بالا

سایہ بھی نہ اس پری پہ ڈالا
ہیبت سا زمیں کے دل میں آیا

اندیشے کی طرح سے سمایا
جب نقب افق سے مہر تاباں

نکلا، تو وہ ماہ روشتاباں
گل ہاتھ میں مثل دست انساں

دونوں تھیں اس کی منتظرواں
گل لے کے جب آملا وہ گل چیں

اس نقب کی رخنہ بندیاں کیں
آوارہ ہونا بکاولی کا تاج الملوک گل چیں کی تلاش میں

گل کا جو الم چمن چمن ہے
یوں بلبل خامہ نعرہ زن ہے

کل چیں نے وہ پھول جب اڑایا
اور غنچہ صبح کھل کھلایا

وہ سبزہ باغ خواب آرام
یعنی وہ بکاولی گل اندام

جاگی مرغ سحر کے غل سے
اٹھی نکہت سی فرش گل سے

منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی
پرآب وہ چشم حوض پائی

دیکھا، تو وہ گل ہوا ہوا ہے
کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے

گھبرائی کہ ہیں! کدھر گیا گل!
جھنجلائی کہ کون دے گیا جل

ہے ہے مرا پھول لے گیا کون!
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون

ہاتھ اس پہ اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو پھول اڑا نہیں ہے

نرگس! تو دکھا کدھر گیا گل؟
سوسن! تو بتا کدھر گیا گل؟

سنبل! مرا تازیانہ لانا
شمشاد! انھیں سولی پر چڑھانا

تھرائیں خواصیں صورت بید
ایک ایک سے پوچھنے لگی بھید

نرگس نے نگاہ بازیاں کیں
سوسن نے زباں درازیاں کیں

پتا بھی پتے کو جب نہ پایا
کہنے لگیں: کیا ہوا خدایا!

اپنوں میں سے پھول لے گیا کون
بیگانہ تھا سبزے کو سوا کون!

شبنم کے سوا چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا

جس کف میں وہ گل ہو، داغ ہو جائے
جس گھر میں ہو، گل چراغ ہو جائے

بولی وہ بکاولی کہ افسوس!
غفلت سے یہ پھول پر پڑی اوس

آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا
پتلی وہی چشم حوض کا تھا

نام اس کا صبا! نہ لیتی تھی میں
اس گل کو ہوا نہ دیتی تھی میں

گل چیں کا جو ہائے ہاتھ ٹوٹا
غنچے کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا

اوخار! پڑا نہ تیرا چنگل
مشکیں کس لیں نہ تو نے سنبل!

او باد صبا! ہوا نہ بتلا
خوش بو ہی سنگھا، پتا نہ بتلا

بلبل! تو چہک، اگر خبر ہے
گل! تو ہی مہک، بتا کدھر ہے؟

لرزاں تھی زمیں یہ دیکھ کہرام
تھی سبزے سے راست مو بر اندام

انگلی لب جو پہ رکھ کے شمشاد
تھا دم بہ خود، اس کی سن کے فریاد

جو نخل تھا، سوچ میں کھڑا تھا
جو برگ تھا، ہاتھ مل رہا تھا

رنگ اس کا عرض لگا بدلنے
گل برگ سے کف لگی ہو ملنے

بدلے کی انگوٹھی ڈھیلی پائی
دست آویز اس کے ہاتھ آئی

خاتم، تھی نام کی نشانی
انسان کی دست برد جانی

ہاتھوں کو ملا، کہا کہ ہیہات!
خاتم بھی بدل گیا ہے بدذات

جس نے مجھے ہاتھ ہے لگایا
وہ ہاتھ لگے کہیں خدایا!

عریاں مجھے دیکھ کر گیا ہے
کھال اس کی جو کھینچے، سزا ہے

یہ کہہ کے، جنون میں غضب ناک
خوں روئی، لباس کو کیا چاک

گل کا سا لہو بھرا گریباں
سبزے کا سا تار تار داماں

دکھلا کے کہا سمن پری کو
اب چین کہاں بکاولی کو

تھی بس کہ غبار سے بھری وہ
آندھی سی اٹھی، ہوا ہوئی وہ

کہتی تھی پری کہ اڑکے جاتی
گل چیں کا کہیں پتا لگاتی

ہر باغ میں پھولتی پھری وہ
ہر شاخ پہ جھولتی پھری وہ

جس تختے میں مثل باد جاتی
اس رنگ کے گل کی بو نہ پاتی

بے وقت کسی کو کچھ ملا ہے!
پتا کہیں حکم بن ہلا ہے!

پہنچنا تاج الملوک کا ایک اندھے فقیر کے تکیے پر اور آزمانا گل کا
پھر نا جو وطن کا، مدعا ہے

اب صفحے پہ یو ں قلم پھرا ہے
وہ گلشن مدعا کا گل چیں

یعنی تاج الملوک حق بیں
جس وقت گل اس چمن سے لایا

محمودہ خوش ہوئی کہ آیا
کہنے لگی: لو مراد پائی

بولا وہ: جو یاں سے ہو رہائی
گل کی وہ عرض کر آشکارا

جوبن کی طرح اسے ابھارا
جب دیو سیاہ شب سے ماہتاب

رخصت ہوا، جیسے چشم سے خواب
اور گل لیے آفتاب تاباں

ہنگام سحر ہوا شتاباں
وہ مہر وش اور اوہ ماہ پیکر

اس دیونی پاس آتے مضطر
گل کی وہ عرض جتائی اس کو

رخصت کی طلب سنائی اس کو
کیا کہتی وہ دیونی، کہا: جاؤ

دیووں سے کہا کہ تخت لے آؤ
بولے کہ کدھر چلو گے، کہہ دو

فردوس کے رخ، کہا، ادھر کو
وہ مڑ کے، ادھر کو اڑاکے آئے

گلزار میں بیسوا کے لائے
وقت سحر اور خنک ہوا تھی

گل گشت چمن مین بیسوا تھی
چار آنکھیں ہوئیں تو تھی شناسا

قدموں پہ گری وہ سایہ آسا
صدقے ہو کر کہا: خوش آئے

جس گل کی ہوا لگی تھی، لائے؟
ہمراہ یہ کون دوسری ہے؟

سایہ ہے کہ ہم قدم پری ہے!
بولا شہ زادہ: شکر ہے، ہاں

پر ہے گل آرزو سے داماں
محمودہ نام یہ جو ہیں ساتھ

پھول ان کے سبب سے آگیا ہاتھ
جیتا جو پھرا وہ رشک شمشاد

قیدی کیے بیسوا نے آزاد
جھوٹوں اس نے تھا ان کو تایا

سچوں، کھوٹوں نے داغ کھایا
دغا، تو چلے تفنگ سے وہ

چھوٹے قید فرنگ سے وہ
چھوڑا ہوس گل و چمن کو

چاروں داغی پھرے وطن کو
بندوں کو کشتیوں پہ کر بار

سونپا سب ناخدا کو گھر بار
جب متصل آگیا وطن کے

خندے یاد آئے مرد و زن کے
سوچا کہ میں خود ہوں خانہ برباد

کیا جانیے کیا پڑے گی افتاد
لازم ہے گل اپنے ہاتھ رکھیے

موقع نہیں بھیڑ ساتھ رکھیے
لنگر کا انہیں کیا اشارہ

خود کشتی سے کر گیا کنارہ
وہ پوربی، کر کے جو گیا بھیس

جنگلے کی راہ سے چلا دیس
تکیے پہ فقیر، پیر، اندھا

اک گوشے میں آنکھیں مانگتا تھا
تھا نقش قدم سا خاک رہ پر

ٹھہرا وہ مسافر اس جگہ پر
بے تجربہ تھی نمایش گل

واجب تھی آزمایش گل
پتلی پہ زر گل آزمایا

سونے کو کسوٹی پر چڑھایا
گل سے ہوئیں چشم کور تاباں

ہو جیسے چراغ سے چراغاں
منہ دیکھ کے اس نے دیں دعائیں

پنجے سے مژہ کے لیں بلائیں
گل کے جو اثرسے شادماں تھا

گل چیں وہ ہوا سے ہم عناں تھا
ملنا چاروں شہ زادوں کا اور چھن جانا گل بکاولی کا

تاج الملوک سے اور بینا ہونا چشم زین الملوک کا
ہے بس کہ یہ چرخ جور پیشہ

یوں خار رہ قلم ہے ریشہ
یہ جا کے، اسی جگہ پہ ناگاہ

آپہنچے وہ چاروں غول گم راہ
کہتے تھے کہ واہ رے مقدر!

کس شک سے پھر کے جاتے ہیں گھر


کیا رنگ زمانے نے دکھائے!
گل لینے گئے تھے، داغ لائے

کس منہ سے پدر کے آگے جائیں
کیوں کر بے پھول منہ دکھائیں

ٹھہرائی کہ اور پھول لے جایئں
کحال کو بے وقوف بنایئں

اک باد ہوائی توڑ کر پھول
کہنے لگے پھول پھول کر غول

کیا پھول ہے! کیا اثر ہے اس میں!
ہو جاتی ہیں روشن اندھی آنکھیں

وہ کور کہ ہو چکا تھا بینا
دیکھا اس نے جو یہ قرینا

بولا کہ یہ گل، وہ گل نہیں ہے
اس پھول کی اور گل زمیں ہے

وہ جوگی جو جاتے ہیں، اگر آئیں
دکھلائیں وہ گل، تو آنکھیں کھل جائیں

میں کور، ابھی ہو چکا ہوں بینا
اندھا نہیں اب ہوا ہوں بینا

چاروں کو تھی حسرت گل تر
چو بائی ہوا کی طرح چل کر

اس جوگی کے جب برابر آئے
باہم کہا: دیکھو پھول لائے

گل ہے کہ علاج نور ہے یہ!
گل ہے کہ چراغ طور ہے یہ!

جوگی، یعنی وہ شاہ زادہ
بولا کہ بکو نہیں زیادہ

پاتے اگر اس درخت کی چھاؤں
رکھتے ہی نہ تم زمین پر پاؤں

ڈینگ آپ کی سب فضول ہے یہ
وہ گل یہ نہیں، وہ پھول ہے یہ

یہ کہہ کے، جو جیب سے نکالا
ان مفت بروں نے ہاتھ ڈالا

قوت میں وہ چارتھے، یہ بے کس
شورش میں وہ چار، موج، یہ خس

غولوں نے بہ زور پھول اڑایا
اس خضر کو راستہ بتایا

گل پانے سے بس کہ سرخ رو تھے
گھوڑوں پہ ہوا کے مثل بو تھے

تعجیل سے رو بہ راہ آئے
گل لے کے حضور شاہ آئے

گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ
آنکھوں کی طرح پھڑک گیا شاہ

پنجے سے پلک کے پھول اٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا

نور آ گیا چشم آرزو میں
آیا پھر آب رفتہ جو میں

خورشید بصر گہن سے چھوٹا
خیرات کے در کا قفل ٹوٹا

دولت جو پاس تھی، لٹائی
زر بخشا گل کی رونمائی

ایک ایک کو اس قدر دیا زر
محتاج، گدا، ہوئے تو نگر

سجوائے طرب کے کار خانے
بجوائے خوشی کے شادیانے

پہنچنا بکاولی کا دارالخلافت زین الملوک میں اور وزیر ہو کر تاج الملوک کی تلاش میں رہنا
گل چیں کا جو اب پتا ملا ہے

یو شاخ قلم سے گل کھلا ہے
وہ باد چمن چمن خراماں

یعنی وہ بکاولی پریشاں
گلشن سے جو خاک اڑاتی آئی

اس شہر میں آتی آتی آئی
دیکھا تو خوشی کے چہچہے تھے

گل چیں کے شگوفے کھل رہے تھے
گلبانگ زناں تھا، جو جہاں تھا

ایک ایک، ہزار داستاں تھا
پاتے ہی پتا، خوشی سے پھولی

شاد ایسی ہوئی کہ رنج بھولی
جادو سے بنی وہ آدمی زاد

انسانوں میں آ ملی پری زاد
سلطاں کی سواری آرہی تھی

صورت جو نگاہ کی، پری تھی
پوچھا: اے آدم پری رو!

انساں ہے، پری ہے، کون ہے تو؟
کیا نام ہے اور وطن کدھر ہے؟

ہے کون سا گل، چمن کدھر ہے؟
دی اس نے دعا، کہا بہ صد سوز

فرخ ہو شہا! میں ابن فیروز
گل ہوں، تو کوئی چمن بتاؤں!

غربت زدہ کیا وطن بتاؤں!
گھر بار سے کیا فقیر کو کام

کیا لیجیے چھوڑے گاؤں کا نام
پوچھا کہ سبب؟ کہا کہ قسمت

پوچھا کہ طلب؟ کہا: قناعت
باتوں پہ فدا ہوا شہنشاہ

لایا بہ صد امتیاز ہمراہ
چہرے سے امیرزادہ پایا

گھر لا کے، وزیر اسے بنایا
نذریں لیے بندگان درگاہ

دستور سے آملے بہ صد جاہ
دربار میں چاروں شاہ زادے

دیکھے، تو کھلے وہ دل کے سادے
چاہا، گل چیں کا امتحاں لے

پوچھا کہ نگیں جو لے، کہاں لے؟
بتلانے لگے وہ چاروں ناداں

کوئی یمن اور کوئی بدخشاں
جانا کہ جو گل یہ لائے ہوتے

خاتم کے نگیں بتائے ہوتے
تجویز میں تھا یہ صاحب فکر

آیا تاج الملوک کا ذکر
نقش اس کو ہوا کہ بس وہی ہے

ان سادوں سے کندہ کب ہوئی ہے
ظاہر نہ کیا بطون اپنا

طالع سے لیا شگون اپنا
منزل گہ رہ رواں بنا کے

شام و سحر اس میں آپ آکے
رہ رو کو دیا بہ لطف و اکرام

آتے آرام، جاتے پیغام
آباد ہونا تاج الملوک کا گلشن نگاریں بنوا کے اور شہرہ ہونا

تعمیر مکاں کے ہیں جو آثار
یوں خامہ ہے بہر بیت، معمار

شہ زادہ کہ عازم وطن تھا
گل پانے سے خوش چمن چمن تھا

اندھے کو کیا جب اس نے بینا
اور داغیوں نے وہ پھول چھینا

سوچا کہ خوشی خدا کی، غم کھاؤ
حمالہ دیونی کو بلواؤ

نقل ارم ایک مکاں بنا کے
رکھوں پریوں کو اپنی لاکے

بال آگ پہ رکھتے، آندھی آئی
وہ دیونی بال باندھی آئی

تنہا اسے دیکھ کر کہا: ہیں!
محمودہ کیا ہوئیں؟ کہا: ہیں

دریا پہ ہوں ان کو چھوڑ آیا
مسکن کے لیے تمھیں بلایا

لیکن وہ مکاں، وہ حوض، وہ باغ
جو باغ بکاولی کو دے داغ

حمالہ نے دیووں کو کیا یاد
آئے تو کہا: یہ بن، ہو آباد

ویرانے کو گل زمیں بناؤ
گلزار جو اہریں بناؤ

صناع طلسم کار تھے وہ
گلشن کے لیے بہار تھے وہ

دیووں نے ادھر محل بنایا
کشتی سے وہ دخت رز کو لایا

حمالہ اس کی مادر پیر
محمودہ سے ہوئی بغل گیر

کچھ دیووں کو چھوڑ کر وہیں پر
رخصت ہو کر چلی گئی گھر

گلشن میں سمن بڑوں کو لایا
نسریں بدنوں سے گھر بسایا

دونوں کو محل میں لا کے رکھا
پھل نخل مواصلت کا چکھا

دیووں کو کہا کہ بہر تمکیں
آباد ہو گلشن نگاریں

دیو، آدمی بن کے بن میں آئے
آتے جاتے کو گھیر لائے

جو سن کے خبر، گیا ادھر کو
جنت سے وہ پھر پھرا نہ گھر کو

ازبس کہ قریب شہر تھا باغ
خورشید افق نظر پڑا باغ

مفلس، زردار، امیر، قلاش
نوکر، تاجر، فقیر، خوش باش

گھر چھوڑ کے چل بسے سب انساں
پھر تن میں نہ آئے صورت جاں

ملاقات ٹھہرنی زین الملوک اور تاج الملوک کی آپس میں
گلشن جو بنا جواہر آگیں

یوں صفحہ قلم سے ہے نگاریں
ساعد نام ایک مہ لقا تھا

دلبر کا غالام با وفا تھا
صحرا سے جو سیر کر کے آیا

لکڑی کے چکا کے بو جھ لایا
دلوائے ہر ایک کو پے قوت

الماس و عقیق و لعل و یاقوت
تھی بس کہ وہ جا خلاصہ دہر

کچھ ٹھہرے، کچھ آئے جانب شہر
کف میں جو وہ لعل بے بہا تھے

من پاتے ہی، لوگ اژدہا تھے
شحنے نے سنا، پکڑ بلایا

لے کر اظہار، ساتھ آیا
دیکھا تو وہ جلوہ گاہ امید

اک دائرہ تھا بہ رنگ خورشید
دروازے پہ دیووں کا تھا پہرا

بھجوا کے خبر، وہ شحنہ ٹھہرا
جب واں سے طلب ہوا، تو درباں

لائے اسے پیشگاہ سلطاں
آداب کیا، ادب سے ٹھہرا

ہیبت زدہ دور سب سے ٹھہرا
ان لوگوں کو لے گیا تھا ہمراہ

معروض کیا کہ یا شہنشاہ!
کم مایہ یہ لوگ ہیں بہ ظاہر

چوری کے تو یہ نہیں جواہر
ساعد نے کہا کہ ہے یہ حاسد

نیت ہوئی ہوگی اس کی فاسد
حضرت! یہ وہی تو تبردار

جا، ان سے نہ بولیو، خبردار!
پھر کر انھی پاؤں شحنہ بے آس

آیا زین الملوک کے پاس
کی عرض کہ باغ اک بنا ہے

یہ شہر اجڑا ہے، وہ بسا ہے
جو کوئی ہے اس جگہ پہ جاتا

ڈھیروں ہے جواہرات پاتا
حضرت نے کہا کہ بک نہ خیرہ

قاروں کا وہیں ہے کیا ذخیرہ!
فرخ کہ وزیر باخرد تھا

سلطاں مشیر نیک و بد تھا
بولا کہ شہا! یہ بات کیا ہے

نیرنگ و فسوں کا گھر بڑا ہے
ہر چند کہ طرفہ حال ہے یہ

کچھ دور نہیں، مثال ہے یہ
حکایت ایک عورت کے مرد بن جانے کی دیو کے جادو سے

اک ملک میں ایک صاحب فوج
رکھتا تھا محل میں بارور زوج

تھا داغ پسر مقدر اس کو
جننی تھی ہمیشہ دختر اس کو

از بس کہ وہ شاہ تھا بد اختر
کرتا تھا حسد سے قتل دختر

اک بار محل میں پھر حمل تھا
وہ شاہ کہ ظلم میں مثل تھا

کھا بیٹھا قسم کہ اب کی باری
بیٹا جو نہ دے جناب باری

اقبال کا کچھ نہ جانے اوج
کر ڈالیے ذبح دختر و زوج

کنیا تھی غرض کہ راس اس کی
پوری نہ ہوئی وہ آس اس کی

سلطاں کا جو عہد بے خلل تھا
گھر والوں کو خوف کا محل تھا

ملحوظ بہ دل تھا پردہ راز
سیارہ شناسوں سے کیا ساز

ہر چند ستارہ مال کا تھا ماند
تھی چاندنی، شہرہ کر دیا چان

بیٹے کا وہ زائچہ بنا کے
گویا ہوئے دست بستہ آ کے

حضرت! یہ پسر ہے نیک اختر
بدیمن مگر ہے ایک اختر

جب تک نہ چلے یہ اپنے پاؤں
حضرت نہ پسر کے سامنے ہوں

حلیہ کر کے چھپا کے یک چند
بے تاب ہوا جب آرزومند

وہ گندم جو نما تھی بالی
مردانہ لباس سے نکالی

خوش ہو کے پدر نے بہر شادی
ٹھہرائی کہیں کی شاہ زادی

بن ٹھن کے عروس شک داماد
شادی کو چلی بہ جان ناشاد

اک شب کسی دشت میں تھے ڈیرے
اور روز نکاح تھا سویرے

خیمے سے وہ بے قرار نکلی
اس چھالے سے مثل خار نکلی

دیکھا تو اندھیری رات سنسان
اک عالم ہو ہے اور بیابان

ایک دیو وہاں پہ گشت میں تھا
جویاے شکار دشت میں تھا

دیکھا تو کہا: خضر ملے، آؤ
منہ کھولو، عدم کی راہ بتلاؤ

بولا وہ کہ سن تو آدمی زاد!
کیوں تنگ ہے جی سے، کیا ہے بیداد؟

اے مرد خدا! خدا کی سوگند
کہہ، جس لیے تو ہے آرزو مند

بولی وہ کہ یہ خیال، ہے خام
خنجر کا ہو کیا نیام سے کام

کہہ کر کھلے بندوں جی کی تنگی
بے ننگ، ہوئی وہ شوخ، ننگی

آنکھیں جھپکا کے دیو بولا
تو کیا کھلی، پردہ تو نے کھولا

خاطر تری، لے طلسم دکھلاؤں
تو مجھ سی بنے، میں تجھ سا بن جاؤں

موند آنکھ کہا، تو موند لی آنکھ
کھول آنکھ کہا، تو کھول دی آنکھ

پائے مردانگی کے پر تو
دامن میں سے دی چراغ نے لو

تھا لے میں یہاں اگا صنوبر
واں شیشہ، رہا ترش کے، ساغر

اب یاں سے ہے قصہ مختصر طول
فرخ کہ وہ تھا وزیر معقول

بولا کہ شہا! جو یہ ہوا ہے
اس بات کا پھر وجود کیا ہے

شہ نے کہا: سن وزیر دانا
بے دیکھے، سنے کو کس نے مانا

یاد آئی مجھے بھی اک روایت
یہ کہہ کے، بیان کی حکایت

حکایت نصیحت گری مرغ اسیر و نافہمی صیاد کی
اک مرغ ہوا اسیر صیاد

دانا تھا وہ طاہر چمن زاد
بولا جب اس نے باندھے بازو

کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو
بیجا، تو ٹکے کا جانور ہوں

گر ذبح کیا، تو مشت پر ہوں
پالا، تو مفارقت ہے انجام

دانا ہو، تو مجھ سے لے مرے دام
بازو میں نہ تو مرے گرہ باندھ

سمجھاؤں جو پند، اسے گرہ باندھ
سن، کوئی ہزار کچھ سنائے

کیجے وہی جو سمجھ میں آئے
قابو ہو، تو کیجئے نہ غفلت

عاجز ہو، تو ہاریے نہ ہمت
آتا ہو، تو ہاتھ سے نہ دیجے

جاتا ہو، تو اس کا غم نہ کیجے
طائر کے یہ سن کلام، صیاد

بن داموں ہوا غلام صیاد
بازو کے جو بند کھول ڈالے

طائر نے تڑپ کے پر نکالے
اک شاخ پہ جا، چہک کے بولا

کیوں، پر مرا کیا سمجھ کے کھولا؟
ہمت نے مری، تجھے اڑایا

غفلت نے تری، مجھے چھڑایا
دولت نہ نصیب میں تھی تیرے

تھا لعل نہاں شگم میں میرے
دے کر صیاد نے دلاسا

چاہا، پھر کچھ لگائے لاسا
بولا وہ کہ دیکھ، کر گیا جعل

طائر بھی کہیں نگلتے ہیں لعل!
ارباب عرض کی بات سن کر

کر لیجیے یک بہ یک نہ باور
فرخ! یہ وہی مثل نہ ہوئے!

دیکھ آ، جو تجھے دہل نہ ہوئے
مشتاق تو تھا، چلا وہ دستور

دکھلائی دیا وہ بقعہ نور
نقشے میں وہ گلشن نگاریں

گلزار ارم سے تھا خوش آئیں
حیرت تھی کہ یہ طلسم کیا ہے!

پردیس میں ہوں کہ گھر مرا ہے!
اس سوچ میں تخت گہ تک آیا

حیراں وہ وزیر، شہ تک آیا
آداب اک کر کے حسب دستور

ٹھہرا، تو وہ بادشاہ مستور
سمجھا کہ حسین آدمی ہے

کیا جانے کہ خود بکاولی ہے
پوچھا کہ کدھر سے آئے، کیا نام؟

بولا وہ کہ نام سے ہے کیا کام
انسان ہوں، بندہ خدا ہوں

بھیجا زین الملوک کا ہوں
گستاخی معاف، آپ آئے

بن گھیر لیا، مکاں بنائے
بہکا کے بسائے مردم شہر

حضرت کا بڑا ہے آپ پر قہر
دعویٰ یہ ہے، یاں زمیں دابی

آبادی میں آئی ہے خرابی
خیر، اب بھی رفع شر جو چاہو

سر آنکھوں سے چل کے جبہہ سا ہو
بولا وہ کہ فتنہ گر نہیں ہم

شرجن سے ہو، وہ بشر نہیں ہم
درویشی میں دل کے بادشا ہیں

مسند کے تکیے پر گدا ہیں
دستور کہ عرض کر چکا تھا

مثل دل بد گماں رکا تھا
بولا: چلو صلح درمیاں ہو

باہم مہ و مہر کا قراں ہو
بولا وہ: فقیر کی بلا جائے

مشتاق جو ہو، وہ شوق سے آئے
بولا وہ کہ خیر، تابہ فردا

اٹھ جائے گا درمیاں سے پردا
یہ کہہ کے پھرا وزیر، آیا

پہنچا تو وہ شہر خالی پایا
شہ زادہ و شہ محل میں تھے واں

بر ہم زدہ بزم کے چراغاں
شہ نے جو وزیر آتے دیکھا

فرخ، فرخ پکار اٹھا
سلطاں کے نثار ہو کے دستور

بولا کہ بلاے شاہ ہو دور!
دیکھ آیا میں وہ مکان یاقوت

ہے معدن لعل و کان یاقوت
تختہ ہے زمردیں کہ مینو!

گلشن ہے جواہریں کہ جادو!
نقشہ کہوں کیا، نگار خانہ!

جادو کا تمام کار خانہ!
دیووں کی بنائی ہے وہ بنیاد

رہنے والے ہیں آدمی زاد
واں صاحب تاج و تخت جو ہے

درویش ہے، شاہ نام کو ہے
دیو اس کے عمل میں آگئے ہیں

جادو کے محل بنا گئے ہیں
کل آپ بھی چل کے کیجئے سیر

وعدہ کر آیا ہوں، کہا: خیر
بھید کھلنا چھپے ہوؤں کا ایک ایک پر

اب خامے سے وا شگاف یوں ہے
دل ملنے کی راہ صاف یوں ہے

فرخ جو گیا، تو شاہ زادہ
سوچا کہ ہوں ٹھاٹھ کل زیادہ

رکھا آتش پہ دوسرا بال
حاضر ہوئی دیونی قوی بال

دعوت کی اسے خبر سنائی
دیووں کے رخ اس نے آنکھ اٹھائی

ہم چشموں نے چتون اس کی تاڑی
پلکوں سے زمین بن کی جھاڑی

غولوں سے بھرا جو تھا بیاباں
پھولوں سے بنا دیا خیاباں

صناعی انھوں نے رات بھر کی
مشتاق نے واں وہ شب سحر کی

بجتے ہی گجر وہ شاہ ذی جاہ
چاروں شہ زادے لے کے ہمراہ

جو جو امرا تھے، سب بلا کے
فرخ کو خواصی میں بٹھا کے

مشرق سے رواں ہوا دلاور
جس طرح افق سے شاہ خاور

بجلی سے جو زرق برق آئے
فرش، ابر کی طرح بچھتے پائے

دیکھا تو تمام دشت گلزار
دائیں بائیں دورستہ بازار

شہ کہتے تھے: دشت پر خسک تھا
فرخ کہتا تھا: کل تلک تھا

غافل تھے کہ سبز باغ ہے یہ
اپنے ہی جگر کا داغ ہے یہ

تجویز رہے تھے سب کے سب دنگ
جادو، افسوں، طلسم، نیرنگ

کیا لشکر اور کیا شہنشاہ
سناٹے میں تھے کہ اللہ اللہ!

دیکھے جو جواہرات کے ڈھیر
سب من کی ہوس سے ہو گئے سیر

شہ زادے نے آمد ان کی پائی
کی تادر خانہ پیشوائی

دونوں میں ہوئیں جو چار آنکھیں
دولت کی کھلی ہزار آنکھیں

ایوان جواہریں میں آئے
الماس کی شبہ نشیں میں آئے

وہ چتر کے زیر سایہ بیٹھے
افسر سب پایہ پایہ بیٹھے

جو جو کہ تو اضعات ہیں عام
لے آئے خواص نازک اندام

چکنی ڈلی، عطر، الائچی، پان
نقل و مے و جام و خوان انوان

رغبت سے انہیں کھلا پلا کے
بولا شہ زادہ مسکرا کے

اس تاج شہی میں کے نگیں ہیں؟
کے نام و نشان دل نشیں ہیں؟

سلطاں نے کہا بہ صد لطافت
یہ چار ہیں عنصر خلافت

ایک اور ہوا تھا قابل خشم
وہ نور بصر، تھا دشمن چشم

جب لائے یہ گل بکاولی کا
نکلا تب خار روشنی کا

پوچھا اس نے: وہ اب کدھر ہے؟
سلطاں نے کہا کہ کیا خبر ہے!

ایک ان میں سے چشم آشنا تھا
کو کہ اسی شاہ زادے کا تھا

بولا کہ حضور ادھر تو دیکھیں
دیکھا، تو کہا: مری نظر میں

صورت وہی، رنگ رو وہی ہے
لہجہ وہی، گفتگو وہی ہے

یہ سنتے ہی، اس نے خندہ کر کے
سر، پاؤں پہ رکھ دیا پدر کے

سر، قدموں سے شاہ نے اٹھایا
فرزند کو چھاتی سے لگایا

لے لے کے بلائیں کاکلوں کی
پیشانی چومی، پیٹھ ٹھونکی

عرض اس نے کیا کہ دو پرستار
پا بوسی شہ کی ہیں طلب گار

حضرت نے کہا: بلائیے خیر
اٹھ جائیں، جو بیٹھے ہوں یہاں غیر

شہ زادے نے اک مکاں بتایا
ایک ایک اٹھا، ادھر کو آیا

سب اٹھ گئے، پر وہ چاروں باغی
بیٹھے رہے فرش گل پہ داغی

شہ زادہ اٹھا، محل میں آیا
پردے تلک ان کو ساتھ لایا

دلبر سے کہا: میں جب کہوں، آؤ
تو کہیو، یہ چاروں داغی اٹھواؤ

درپردہ سکھا کے، باہر آیا
بے پردہ حضور شہ بلایا

دلبر نے کہا: لجاؤں گی میں
قربان گئی، نہ آؤں گی میں

اٹھ جائیں یہ چاروں سست بنیاد
داغے ہوئے ہیں غلام، آزاد

چاروں کا، جو سنتے ہی، اڑا رنگ
یک بار گی شاہ ہوگیا دنگ

دکھلائی دیے جو بیٹے بے رخ
دیکھا تاج الملوک کے رخ

یاں دل پہ تھے داغ، واں سریں پر
یاں نام پہ حرف، واں نگیں پر

وہ جعل، وہ ہار، وہ غلامی
وہ گھات، وہ جیتنا تمامی

وہ دسترس اور وہ پائے مردی
وہ بے کسی اور وہ دشت گردی

وہ دیو کی بھوک اور وہ تقریر
وہ حلوے کی چاٹ اور وہ تحریر

وہ سعی، وہ دیونی کی صحبت
محمودہ کی وہ آدمیت

تجویز کے وہ سرنگ کی راہ
اور موش دوانیاں وہ دل خواہ

وہ سیر چمن، وہ پھول لینا
وہ عزم وطن، وہ داغ دینا

وہ کور کے حق میں خضر ہونا
وہ غولوں سے مل کے پھول کھونا

وہ بال کو آگ کا دکھانا
وعدے پہ وہ دیونی کا آنا

وہ نزہت گلشن نگاریں
وہ دعوت بادشا، وہ تمکیں

گزرا تھا جو کچھ، بیاں کیا سب
پنہاں تھا جو کچھ، عیاں کیا سب

انگشتری پری دکھا کر
کھلوئی سریں کی مہر محضر

پہلے تو بہت وہ منہ چڑھے ڈھیٹھ
آخر داغی دکھا گئے پیٹھ

اٹھوا کے انہیں، وہ دو خوشی آئیں
پا بوسی شہ کو سر سے آئیں

حضرت نے سمجھ کے حسن خدمت
دونوں کو دیے خطاب و خلعت

نذریں ان دونوں نے دکھائیں
رخصت ہو کر محل میں آئیں

مسند سے شہ اٹھ کے بے محابا
بولا بیٹے سے: جان بابا!

روشن کیا دیدہ ٔپدر کو
مادر کے بھی چل کے آنسو پوچھو

مشتاق کو روبہ راہ پایا
ہمراہ اسے تابہ خانہ لایا

ماں نے دیکھا جو وہ دلاور
اشکوں کے گہر کیے نچھاور

وہ طفل بھی گر پڑا قدم پر
مانند سر شک چشم مادر

ہر خویش ویگانہ سے ملا وہ
پھر اپنی جگہ پہ آگیا وہ

غائب ہو جانا فرخ یعنی بکاولی کا اور بلوانا تاج الملوک
کو گلشن نگاریں سے اور متفق ہو کر گلزار ارم میں رہنا

کھلنے پہ جو ہے طلسم تقدیر
اب خامے نے یو کیا ہے تحریر

فرخ، وہ بادشا کا دستور
یعنی وہ بکاولی مستور

مطلوب کا سن سمجھ کے سب حال
چاہی کہ نکالے کچھ پر وبال

سوچی کو دلا! شتاب کیا ہے
پھر سمجھیں گے، اضطراب کیا ہے

اس وضع کا پاس کر گئی وہ
تغیر لباس کر گئی وہ

فرخ کہنے تک آدمی تھی
پھر وہ ہی بکاولی پری تھی

غربت سے چلی، وطن میں آئی
صحرا سے اڑی، چمن میں آئی

پژ مردہ خواصوں پڑی جان
صدقے ہوئی کوئی، کوئی قربان

اس غنچے میں اک سمن پری تھی
وہ ہم نفس بکاولی تھی

بولی: کہو کیا کیا، کہا: خوب
بے کچھ کیے پھر بھی آئی، کیا خوب!

مانگا کاغذ، دوات، خامہ
لکھا گل چیں کے نام نامہ

اے یوسف چشم زخم یعقوب!
وے رشک برادران منکوب!

اے دل بر دلبرد غل باز!
وے دیو سوار عرش پرواز!

اے آب تہ زمین نیرنگ!
وے نقب دوان باغ گل رنگ!

اے پردہ کشاے بے حجابی!
وے دزد حناے دست یابی!

اے رہ رو رو بہ رہ نہادہ!
وے صر صر گل بہ باد دادہ!

اے بے سر و برگ گلشن آرا!
وے لعل نماے سنگ خارا!

اے بے خبر طلسم صورت!
وے بے بصر رخ ضرورت!

اے باعث عزم میہمانی!
وے صاحب بزم میزبانی!

اے آئنہ دار خود نمائی!
وے سرمہ چشم آشنائی!

اے پردہ کشاے روے پنہاں!
وے داغ نماے پشت اخواں!

تو باغ ارم سے لے گیا گل
تو مجھ سی پری کو دے گیا جل

بے رخ ترے واسطے ہوئی میں
فرخ ترے واسطے ہوئی میں

تجھ کو ترے باپ سے ملایا
مجھ کو یہ ملا کہ تجھ کو پایا

جو جو اسرار تھے نہانی
سب تجھ سے سنے تری زبانی

کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو ہو جو سر پہ چڑھ کے بولے

چاہا تھا، کروں سرے سے پامال
کر شکر، سمجھ کہ تھا خوش اقبال

کیا کہیے کہ صورت اور کچھ تھی
وقت اور، ضرورت اور کچھ تھی

اب تک ہیں وہ خارجی کے جی میں
جلد آ کہ ہے مصلحت اسی میں

آئے گا، تو در گذر کروں گی
ورنہ میں بہت ساشر کروں گی

داغوں پہ دیے ہیں داغ تو نے
دکھلائے ہیں سبز باغ تو نے

کانٹوں میں اگر نہ ہو الجھنا
تھوڑا لکھا بہت سمجھنا

پھر خط کی نہ ہو امیدواری
القط ہے قلم کی دوست واری

یہ لکھ کے، کہا سمن پری کو
چالاک ہے تو ہی قاصدی کو

یہ خط، یہ انگوٹھی لے، ابھی جا
پورب کی سمت کو چلی جا

رستے میں ہے گلشن نگاریں
رہتا ہے وہیں مرا وہ گل چیں

خاتم کے نشاں سے نامہ دیجو
ٹھہری رہیو، جواب لیجو

خط، خاتم لے کے وہ ہوائی
پتا ہوئی اور پتے پہ آئی

وہ باغ کہ تھا جواہر آگیں
ثابت ہوا گلشن نگاریں

وہ آدم حوروش، پری رو
یعنی تاج الملوک خوش خو

گل گشت میں تھا کسی روش پر
محمودہ دائیں، بائیں دلبر

قاصد نے جو رخ پری دکھایا
دھیان اس کو بکاولی کا آیا

پہچانتے ہی نگین خاتم
بے شبہ ہوا یقیں کا عالم

پر تو پہ وہ یوں چلا تڑپ کے
انگارے پہ جیسے کبک لپکے

دھوکا تھا فقط بکاولی کا
قاصد نے دیا وہ خط پری کا

گو سرمہ خموشی نے کھلایا
تحریر کو آنکھوں سے لگایا

قاصد سے کلام لطف بولا
خط صورت چشم شوق کھولا

وہ نامہ کہ عنبریں رقم تھا
قسمت کا نوشتہ یک قلم تھا

تحریر تھی سر گذشت ساری
کچھ یاس تھی، کچھ امیدواری

منگوا کے وہیں دوات و خامہ
تحریر کیا جواب نامہ

اے شاہ ارم کی دخت گل فام!
فرخ لقب و بکاولی نام

اس نام کے، اس لقب کے صدقے
اس نامے کے، اس طلب کے صدقے

میں نے جو غرض سے جی چرایا
تو نے کیوں آ کے منہ چھپایا؟

میری جو بدی ہوئی تھی کچھ یوں
تو نیک ہے، بے ملے گئی کیوں؟

تو جائے، تو کیوں نہ آئے افسوس
افسوس، افسوس، ہاے افسوس!

تقدیر پھری، پھری نہیں تو،
امید گئی، گئی نہیں تو

اے کاش! میں کچھ بھی سانس پاتا
جی کھول کے داغ دل دکھاتا

معلوم تو ہے کہ شوق کیا تھا
جو کھینچ کے یاں سے لے گیا تھا

اب مجھ میں وہ دم اجی کہاں ہے
وہ دل، وہ جگر، وہ جی کہاں ہے

مر جاؤں اگر طلب میں تیری
میں کیا، کہ خبر نہ پہنچے میری

قابل واں آنے کے کہاں ہوں
یاں بھی جو رہا، تو نیم جاں ہوں

تجھ سے میری خاطر اب کہاں جمع
تو نشتر شعلہ، میں رگ شمع

تو برق دماں، میں خرمن خار
تو سیل رواں، میں خستہ دیوار

تو جوشش یم، میں مور بے پر
میں نقش قدم، تو باد صرصر

دھڑکا ہے یہی، تو جان دوں گا
مرجاؤں گا، اب نہ میں جیوں گا

ہو تجھ سی پری جو خصم جانی
انساں کی ہے مرگ، زندگانی

منظور جو ہو حیات میری
تو مان لے ایک بات میری

حمالہ کو بھیج، آ کے لے جائے
شاید مجھے زندہ پا کے پہنچائے

بھیجا نہ اسے، تو جان لینا
آسان ہے یاں بھی جان دینا

یہ لکھ کے، جو خط سے ہاتھ اٹھایا
قاصد نے لیا جو اب، لایا

مطلوب کا خط وہ پڑھ رہی تھی
دیکھا تو وہ دیونی کھڑی تھی

پوچھا کہ اری! تجھے خبر ہے
گل چیں مرا کون سا بشر ہے؟

وہ صدقے ہوئی، کہا: بلا لوں
بے دیکھے کسی کا نام کیا لوں!

یہ سن کے، وہ شعلہ، ہو بھبوکا
بولی کہ تجھے لگاؤں لوکا

تیرا ہی تو ہے فساد مردار!
داماد کو گل دیا، مجھے خار

گل نقب کی راہ لے گیا چور
زندہ کروں اس موئے کو درگور

حمالہ! جلی ہوں، کیا کہوں میں
داماد کو لا، تو ٹھنڈی ہوں میں

آگاہی جو دیونی نے پائی
بگڑی ہوئی بات یوں بنائی

محمودہ ہے کنیز زادی
انساں سے ہوئی ہے اس کی شا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse