گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
by امیر مینائی

گزر کو ہے بہت اوقات تھوڑی
کہ ہے یہ طول قصہ رات تھوڑی

جو مے زاہد نے مانگی مست بولے
بہت یا قبلۂ حاجات تھوڑی

کہاں غنچہ کہاں اس کا دہن تنگ
بڑھائی شاعروں نے بات تھوڑی

اٹھے کیا زانوے غم سے سر اپنا
بہت گزری رہی ہیہات تھوڑی

خیال ضبط گریہ ہے جو ہم کو
بہت امسال ہے برسات تھوڑی

پلائے لے کے نقد ہوش ساقی
تہی دستوں کی ہے اوقات تھوڑی

وہی ہے آسماں پر گنج انجم
ملی تھی جو تری خیرات تھوڑی

ترا اے دخت رز واصف ہے واعظ
پئے حرمت ہے اتنی بات تھوڑی

چلو منزل امیرؔ آنکھیں تو کھولو
نہایت رہ گئی ہے رات تھوڑی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse