گزرے وعدے کو وہ خود یاد دلا دیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گزرے وعدے کو وہ خود یاد دلا دیتے ہیں
by عاشق اکبرآبادی

گزرے وعدے کو وہ خود یاد دلا دیتے ہیں
دل کی سوئی ہوئی حسرت کو جگا دیتے ہیں

نو گرفتار قفس ہیں نہیں کرتے فریاد
جان کو تیری یہ صیاد دعا دیتے ہیں

طالب جلوۂ دیدار سمجھ کر مجھ کو
اک جھلک سی رخ روشن کی دکھا دیتے ہیں

ذبح کرتے ہیں تڑپنے نہیں دیتے مجھ کو
تہہ زانو مری گردن کو دبا دیتے ہیں

اپنے موقع پہ ہر اک بات بھلی ہوتی ہے
شب فرقت میں یہ صدمے بھی مزا دیتے ہیں

غیر کے کہنے سے در گور کہا کرتے ہیں
جیتے جی وہ مجھے پیغام قضا دیتے ہیں

میں وہ قیدی ہوں کہ سونے نہیں دیتے مجھ کو
آنکھ لگتی ہے تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

لے لیا بوسۂ رخسار تو کیا جرم کیا
پیار کی بات پہ ناحق وہ سزا دیتے ہیں

شمع محفل ہوں نہ عاشق نہ میں بوئے گل ہوں
مہ جبیں کیوں مجھے آنچل کی ہوا دیتے ہیں

ان کے قبضہ میں ہے کونین کی شاہی عاشقؔ
شاہ وہ دے نہیں سکتے جو گدا دیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse