گزارے ہجر میں برسوں ہی وصل یار کے بعد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گزارے ہجر میں برسوں ہی وصل یار کے بعد
by نواب امراوبہادر دلیر

گزارے ہجر میں برسوں ہی وصل یار کے بعد
اٹھایا جبر بہت ہم نے اختیار کے بعد

نہ دشمنوں کے لئے تھی زمین کوچۂ دوست
بنی نہ پھر کوئی تربت مرے مزار کے بعد

کس آسرے پہ گزاروں زمانۂ فرقت
کہ ناامید ہوا ہوں اک انتظار کے بعد

خزاں کے بعد الٰہی بہار پھر دیکھیں
خزاں تو دیکھ چکے موسم بہار کے بعد

مرے شباب کی یاد آ رہی ہے پیری میں
کہ قدر نشہ کی ہوتی ہے کچھ خمار کے بعد

ملا جو قیس سا ہم رنگ دشت وحشت میں
ہوا سکون طبیعت کو انتشار کے بعد

وہ مشق تیر تھی ان کی ہمارے ہی دل تک
ملا نہ پھر کوئی نخچیر اس شکار کے بعد

پس فنا ہے تباہی کی ابتدا مجھ سے
بہت سی آندھیاں اٹھیں گی اس غبار کے بعد

ہم ان کے بس میں ہیں قابو میں تھے جو اپنی دلیرؔ
یہ بے بسی نہ کسی کو ہو اختیار کے بعد

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse