گر یہی ہے عادت تکرار ہنستے بولتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر یہی ہے عادت تکرار ہنستے بولتے
by امیر اللہ تسلیم

گر یہی ہے عادت تکرار ہنستے بولتے
منہ کی اک دن کھائیں گے اغیار ہنستے بولتے

تھی تمنا باغ عالم میں گل و بلبل کی طرح
بیٹھ کر ہم تم کہیں اے یار ہنستے بولتے

میری قسمت سے زبان تیر بھی گویا نہیں
ورنہ کیا کیا زخم دامن دار ہنستے بولتے

دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے

آج عذر اتقا تسلیمؔ کل تک یار سے
آپ کو دیکھا سر بازار ہنستے بولتے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.