گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی
Appearance
گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی
اس دم تمہیں یاد ہے کسی کی
جو سامنے ہو کہے اسی کی
منہ دیکھی ہے بات آرسی کی
پھولوں کا کبھی نہ ہار پہنا
بدھی جو پڑی تری چھڑی کی
گلگیر نے کاٹ کر سر شمع
پروانے سے شب کٹی جلی کی
تسبیح میں بھی ہو تار زنار
خاطر نہ شکستہ کر کسی کی
آیا شب مہ میں وہ جو تا فرش
چادر ہوئی گرد چاندنی کی
صیاد کبھی تو ذبح کر ڈال
مڑ جائے گی باڑ کیا چھری کی
آئینہ برق میں ہے لازم
تصویر کھینچے تری ہنسی کی
ترتیب کہن کی وضع اے عرشؔ
ہم نے دیوان میں نئی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |