گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی
by میر کلو عرش

گر ہو نہ خفا تو کہہ دوں جی کی
اس دم تمہیں یاد ہے کسی کی

جو سامنے ہو کہے اسی کی
منہ دیکھی ہے بات آرسی کی

پھولوں کا کبھی نہ ہار پہنا
بدھی جو پڑی تری چھڑی کی

گلگیر نے کاٹ کر سر شمع
پروانے سے شب کٹی جلی کی

تسبیح میں بھی ہو تار زنار
خاطر نہ شکستہ کر کسی کی

آیا شب مہ میں وہ جو تا فرش
چادر ہوئی گرد چاندنی کی

صیاد کبھی تو ذبح کر ڈال
مڑ جائے گی باڑ کیا چھری کی

آئینہ برق میں ہے لازم
تصویر کھینچے تری ہنسی کی

ترتیب کہن کی وضع اے عرشؔ
ہم نے دیوان میں نئی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse