گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں
by مرزا محمد رفیع سودا

گر کیجئے انصاف تو کی زور وفا میں
خط آتے ہی سب چل گئے اب آپ ہیں یا میں

تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی
لیکن ٹک ادھر دیکھیو اے یار بھلا میں

رکھتا ہے کچھ ایسی وہ برہمن بچہ رفتار
بت ہو گیا دھج دیکھ کے جس کی بہ خدا میں

یارو نہ بندھی اس سے کبھو شکل ملاقات
ملنے کو تو اس شوخ کے ترسا ہی کیا میں

جب میں گیا اس کے تو اسے گھر میں نہ پایا
آیا وہ اگر میرے تو در خود نہ رہا میں

کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse