گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
by میر محمدی بیدار

گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
نہ گیا ہم سے آنکھ بھر دیکھا

نالہ ہر چند ہم نے گر دیکھا
آہ اب تک نہ کچھ اثر دیکھا

آج کیا جی میں آ گیا تیرے
متبسم ہو جو ادھر دیکھا

آئینہ کو تو منہ دکھاتے ہو
کیا ہوا ہم نے بھی اگر دیکھا

دل ربا اور بھی ہیں پر ظالم
کوئی تجھ سا نہ مفت پر دیکھا

اور بھی سنگ دل ہوا وہ شوخ
تیرا اے آہ بس اثر دیکھا

منت و عاجزی و زاری و آہ
تیرے آگے ہزار کر دیکھا

تو بھی تو نے نہ اے مہ بے مہر
نظر رحم سے ادھر دیکھا

سچ ہے بیدارؔ وہ ہے آفت جان
ہم نے بھی قصہ مختصر دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse