گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے
by اسماعیل میرٹھی

گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے
چشم مے گوں کو تری جام پر از مل باندھے

ذکر‌ قامت میں اگر فکر ترقی نہ کرے
رشک طوبی تو لکھے گو بہ‌ تنزل باندھے

طبع کی سلسلہ جنباں جو پریشانی ہو
گیسوئے‌ غالیہ سا کو ترے سنبل باندھے

نالہ تو وہ ہے کہ گھبرا کے اٹھا دے پردہ
لیک نظارہ کی ہمت بھی تحمل باندھے

کچھ نہ بن آئے گی جب لوٹ مچائے گی خزاں
غنچہ ہر چند گرہ کس کے زر گل باندھے

روبرو اس کے لب عرض تمنا نہ ہلے
زور‌ افسون نظر سے گئے بالکل باندھے

ہیں ترے بند قبا عقدۂ دشوار مرے
کہ جو کھولے نہ کھلے اور جو گئے کھل باندھے

نہ بچے پر نہ بچے سیل فنا سے نہ بچے
گر کوئی کنگرۂ‌ چرخ پہ بھی پل باندھے

آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اس نے فوراً
بند برقعے کے بہ انداز تغافل باندھے

ہائے وہ صید کہ صیاد کے پیچھے لپکے
سر کو فتراک پہ ہر دم بہ‌ تفاول باندھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse