گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
Appearance
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
دم کاہے کو یوں اے دل ناکام نکلتا
میں وہم سے مرتا ہوں وہاں رعب سے اس کے
قاصد کی زباں سے نہیں پیغام نکلتا
کرتے جو مجھے یاد شب وصل عدو تم
کیا صبح کہ خورشید نہ تا شام نکلتا
جب جانتے تاثیر کہ دشمن بھی وہاں سے
اپنی طرح اے گردش ایام نکلتا
ہر ایک سے اس بزم میں شب پوچھتے تھے نام
تھا لطف جو کوئی مرا ہم نام نکلتا
کیوں کام طلب ہے مرے آزار سے گردوں
ناکام سے دیکھا ہے کہیں کام نکلتا
تھی نوحہ زنی دل کی جنازے پہ ضروری
شاید کہ وہ گھبرا کے سر بام نکلتا
کانٹا سا کھٹکتا ہے کلیجے میں غم ہجر
یہ خار نہیں دل سے گل اندام نکلتا
حوریں نہیں مومنؔ کے نصیبوں میں جو ہویں
بت خانے ہی سے کیوں یہ بد انجام نکلتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |