گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
by مومن خان مومن

گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
دم کاہے کو یوں اے دل ناکام نکلتا

میں وہم سے مرتا ہوں وہاں رعب سے اس کے
قاصد کی زباں سے نہیں پیغام نکلتا

کرتے جو مجھے یاد شب وصل عدو تم
کیا صبح کہ خورشید نہ تا شام نکلتا

جب جانتے تاثیر کہ دشمن بھی وہاں سے
اپنی طرح اے گردش ایام نکلتا

ہر ایک سے اس بزم میں شب پوچھتے تھے نام
تھا لطف جو کوئی مرا ہم نام نکلتا

کیوں کام طلب ہے مرے آزار سے گردوں
ناکام سے دیکھا ہے کہیں کام نکلتا

تھی نوحہ زنی دل کی جنازے پہ ضروری
شاید کہ وہ گھبرا کے سر بام نکلتا

کانٹا سا کھٹکتا ہے کلیجے میں غم ہجر
یہ خار نہیں دل سے گل اندام نکلتا

حوریں نہیں مومنؔ کے نصیبوں میں جو ہویں
بت خانے ہی سے کیوں یہ بد انجام نکلتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse