گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
by نظام رامپوری

گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
کہنے کا تمہارے مجھے شکوا نہیں ہوتا

گر کہیے کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا
کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا نہیں ہوتا

قاصد کے بھی گر آنے کی امید نہ ہوتی
اک دم بھی تو جینے کا بھروسا نہیں ہوتا

یوں ہی سہی ہم ہجر میں مر جاتے بلا سے
بس اور تو کچھ اس سے زیادہ نہیں ہوتا

کیوں کہتے ہو تم مجھ سے کہ آنا نہیں منظور
یہ کس لیے کہتے ہو کہ آنا نہیں ہوتا

گو غیر برائی سے کریں ذکر ہمارا
اتنا بھی تو واں ذکر ہمارا نہیں ہوتا

لب تک بھی کبھی حرف تمنا نہیں آیا
ایسا کوئی محروم تمنا نہیں ہوتا

بیماریٔ ہجراں سے تو مرنا ہی بھلا تھا
اچھا جو میں ہوتا تو کچھ اچھا نہیں ہوتا

گر غیر سے کچھ تم کو محبت نہیں ہوتی
تو ہم کو یہ رشک قلق افزا نہیں ہوتا

یہ سچ ہے کہ تم آؤ گے پر دل کو کروں کیا
کہنے کا یقیں آپ کے اصلا نہیں ہوتا

ہوتا ہے وہ سب کچھ جو سنا ہو کبھی تم نے
اک تیرے نہ ہونے سے یہاں کیا نہیں ہوتا

اب سمجھے کہ یوں ہم کو بلاتے نہ کبھی تم
گر آپ کی محفل کا یہ نقشا نہیں ہوتا

گو جھوٹ ہو دھوکا ہو تسلی تو ہے دل کو
ہوتا ہے قلق اور جو وعدہ نہیں ہوتا

مقبول تمنا تو نظامؔ اپنی کہاں ہو
مقبول وہاں عذر تمنا نہیں ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse