گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا
by شاد لکھنوی

گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا
پاؤں رکھنے کا ٹھکانا تو کہیں مل جاتا

مر بھی جاتا تو نہ میرا مرض سل جاتا
غم اصنام کی چھاتی پہ دھرے سل جاتا

خط عارض جو ترشنے سے مٹے ہے یہ محال
چھیلنے سے نہیں قسمت کا لکھا چھل جاتا

چھوٹتا عید کے دن بھی نہ گرفتاروں کو
صورت طوق گلو گیر گلے مل جاتا

جب چمکتی ہے تری تیغ تبسم اے گل
دہن زخم ہے غنچے کی طرح کھل جاتا

دل میں ہوتا نہ مرے دخل بلاے کاکل
سایہ رہتا نہ کبھی گریہ مکاں کل جاتا

رعشہ اندام ہوں یہ خوف خدا سے اے شادؔ
کوئی مجرم ہو کلیجہ ہے مرا ہل جاتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse