گریز پا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گریز پا
by شکیب جلالی

دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخل شب سے چاندنی کی پتیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزہ پہ دو پرچھائیاں
جس طرح سپنے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گرے
ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دیے
جس طرح شور جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
اب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی

آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اس نے آخر کیوں بنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse