گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
by قربان علی سالک بیگ

گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
وہ دل میں مرے آبلہ ہو گیا

سمجھتے ہیں وہ فرض اس کی شکست
مرا دل بھی عہد وفا ہو گیا

کہوں کیا نہ دیکھیں جو میری طرف
تغافل شریک حیا ہو گیا

وہ کرتے ہیں سن کر ستم اور بھی
مرا نالہ شکر جفا ہو گیا

قیامت ہوئی اس کی رفتار سے
یہ ہنگامہ ہنگامہ زا ہو گیا

بد و نیک کا ان پہ کیا اعتراض
جو چاہا کیا جو کیا ہو گیا

شب وصل ہونے کی ہے یہ دلیل
شب ہجر سے دن سوا ہو گیا

اثر سب کھچا اس کی گفتار میں
مرا نالہ بھی نارسا ہو گیا

وہ صورت ہے دل کش کہ اس ظلم پر
زمانہ ترا مبتلا ہو گیا

ملا دے جگر کو بھی دل میں خدا
کہ اب شوق حد سے سوا ہو گیا

غم و رنج و حرمان و اندوہ کو
مرا سینہ ملک بقا ہو گیا

محبت میں الزام کیا دل کو دوں
یہ گمراہ تھا مجھ کو کیا ہو گیا

ہجوم بلا ہاے ہجراں نہ پوچھ
تجھے کیا جو کچھ ہو گیا ہو گیا

انا العشق کہنا نہ آیا مگر
کہ منصور انا الحق سرا ہو گیا

یہ تقویٰ جوانی میں سالکؔ مگر
برے وقت میں پارسا ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse