گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر
by مرزا اظفری

گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر
مجال کیا کہ کھلے وہ بہ ناخن تدبیر

دلا تڑپھ کے تو نکلا پڑے ہے سینے سے
یہ گھر اجاڑ نہ اے گھر بسے پکڑ ٹک دھیر

شب فراق میں جاناں کی میں رہا جیتا
کہ سخت جان ہے مجھ کو حجاب دامن گیر

لب اس کے دیکھو تو ہے ظلم و خوں خوری کی دلیل
سیہ مسی پہ نہیں سرخ پان کی تحریر

یہ پھینک تیر نگہ جی سے مار ڈالیں ہیں
بتاؤ کر سکے بے جاں ستم کی کیا تقریر

ٹک آنکھ اٹھا کے جو دیکھا نظر سے دے پٹکا
نہ تھی یہ اظفریؔ اتنی گناہ کی تعزیر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse