گرہ جو پڑ گئی رنجش میں وہ مشکل سے نکلے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرہ جو پڑ گئی رنجش میں وہ مشکل سے نکلے گی
by داغ دہلوی

گرہ جو پڑ گئی رنجش میں وہ مشکل سے نکلے گی
نہ ان کے دل سے نکلے گی نہ میرے دل سے نکلے گی

نہیں دشوار کچھ اپنے مکاں سے لا مکاں جانا
وہیں پہنچائے گی جو راہ جس منزل سے نکلے گی

مری کشتی اگر چھوٹے گی دریائے محبت میں
تو سب سے پہلے بسم اللہ لب ساحل سے نکلے گی

بڑی سختی سے میری جان نکلی ہے کئی دن میں
یکایک لاش کیوں کر کوچۂ قاتل سے نکلے گی

ترشتے ہیں قیامت کے غضب کے رات دن فقرے
نئی جب بات نکلے گی تری محفل سے نکلے گی

رموز عاشقی کو عاشقو تم داغؔ سے پوچھو
کہ باریکی میں باریکی اسی کامل سے نکلے گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse