گرچہ دل میں ہی سدا جان جہاں رہتے ہو
Appearance
گرچہ دل میں ہی سدا جان جہاں رہتے ہو
پر بظاہر نہیں معلوم کہاں رہتے ہو
شکر للہ کہ ابھی کام تمہیں باقی ہے
لے چکے دل تو ولے درپئے جاں رہتے ہو
آ نکلتے ہو کدھر بھول کے بے خواہش دل
اب بھی جاؤ وہیں ہر روز جہاں رہتے ہو
اے خوش ابرو کوئی پھر ڈھب پہ چڑھا تازہ شکار
یوں جو ہر وقت لیے تیر و کماں رہتے ہو
گر کبھی آئے اثرؔ پاس ہوئے ووہیں اداس
خوش شب و روز پڑے اوروں کے ہاں رہتے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |