گرنے کا بہت ڈر ہے اے دل نہ پھسل جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرنے کا بہت ڈر ہے اے دل نہ پھسل جانا
by جمیلہ خدا بخش

گرنے کا بہت ڈر ہے اے دل نہ پھسل جانا
اس بام محبت پر مشکل ہے سنبھل جانا

دل میری سنے کیوں کر سمجھاؤں اسے کیا میں
وحشت نے سکھایا ہے قابو سے نکل جانا

وہ تیرے فقیروں کو آنکھوں سے ذرا دیکھے
جس نے نہیں دیکھا ہے قسمت کا بدل جانا

دکھلاؤ رخ زیبا تا مجھ کو قرار آئے
آساں نہیں عاشق کا باتوں میں بہل جانا

کمزور کیا مجھ کو اب ضعف نقاہت نے
اے عشق ذرا میرے پہلو کو بدل جانا

جلنا تمہیں اس دل کا میں آج دکھاؤں گا
تم نے نہیں دیکھا ہے اک پرچے کا جل جانا

عاشق تری محفل سے اٹھتا ہے یہی کہہ کر
یاں مجمع دشمن ہے اب چاہیے ٹل جانا

سر گشتگئ عاشق کیا تم کو بتاؤں میں
تقدیر بدلنا ہے آنکھوں کا بدل جانا

نادان طبیبوں کو کیا نبض دکھاؤں میں
آزار محبت کو سودا کا خلل جانا

وحشت ہے فزوں دل کی تنہا نہ چلا جائے
لازم ہے جمیلہؔ اب صحرا کو نکل جانا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.