گرمی کی چھٹیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرمی کی چھٹیاں
by افسر میرٹھی

مشکل سے پھر اسکول نہ جانے کے دن آئے
بے فکری سے پھر وقت گنوانے کے دن آئے

پھر رات کو چھپ چھپ کے ڈرانے کے دن آئے
سہمے ہوئے لوگوں کو بنانے کے دن آئے

پھر بیٹھ کے طبلہ سا بجانے کے دن آئے
پھر لیٹ کے تنہائی میں گانے کے دن آئے

ہر صبح کو پھر باغ میں جانے کے دن آئے
تو کہہ کے وہ کوئل کو چڑھانے کے دن آئے

پھر عام کا اچار بنانے کے دن آئے
پھر چھپ کے کہیں کیریاں کھانے کے دن آئے

کر دی تھی کتابوں نے ہماری تو زباں بند
گھر بھر میں پھر اک شور مچانے کے دن آئے

وہ دن گئے خوش رہنے کو جب بھولے ہوئے تھے
ہنسنے کے دن آئے ہیں ہنسانے کے دن آئے

اب وقت کا رونا نہیں اب وقت بہت ہے
ہر کام میں پھر دیر لگانے کے دن آئے

گھر پر بھی تھے گھیرے ہوئے اسکول کے دھندے
آزادی سے اب موج اڑانے کے دن آئے

بہنوں کو ستایا کبھی بھائی کو چڑھایا
لڑنے کے دن آئے ہیں لڑانے کے دن آئے

پھر پھولوں سے لدنے لگا ہر بیلے کا پورا
پودوں میں سے پھر پھول چرانے کے دن آئے

کھولے گئے پھر گرد سے لپٹے ہوئے پردے
دوپہر کو پھر رات بنانے کے دن آئے

پھر لوٹیں گے ہم چاندنی راتوں کی بہاریں
پھر چھت پہ پلنگوں کے بچھانے کے دن آئے

کیوں اب بھی پسینے میں شرابور ہو افسرؔ
ندی پہ کہیں جا کے نہانے کے دن آئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse