گرمی کا موسم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرمی کا موسم
by اسماعیل میرٹھی

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
چلی لو اور تڑاقے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمیں کا فرش ہے چھت آسماں کی
نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرا سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse