گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں
by واجد علی شاہ

گرمیاں شوخیاں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں
کیا ہی نادانیاں نادان سے ہم دیکھتے ہیں

غیر سے بوسہ زنی اور ہمیں دشنامیں
منہ لیے اپنا پشیمان سے ہم دیکھتے ہیں

فصل گل اب کی جنوں خیز نہیں صد افسوس
دور ہاتھ اپنا گریبان سے ہم دیکھتے ہیں

آج کس شوخ کی گلشن میں حنا بندی ہے
سرو رقصاں ہیں گلستان سے ہم دیکھتے ہیں

اخترؔ زار بھی ہو مصحف رخ پر شیدا
فال یہ نیک ہے قرآن سے ہم دیکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse