گرد باد افسوس کا جنگل سے ہے پیدا ہنوز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرد باد افسوس کا جنگل سے ہے پیدا ہنوز
by ولی عزلت

گرد باد افسوس کا جنگل سے ہے پیدا ہنوز
ہات ملتا ماتم مجنوں سے ہے صحرا ہنوز

جوں صدف ہے گرچہ آنکھوں میں سجن بستا ہنوز
کھولتا نیں عقدۂ دل وہ در یکتا ہنوز

جب پتا پوچھوں میں گھر کا یار ہرجائی سیتی
دو دلا کرنے کوں کہتا ہے مجھے جا جا ہنوز

طوق و پیچ زلف لیلہ ہے بگھولے سے عیاں
خاک مجنوں سے نیاز و ناز ہے رسوا ہنوز

گرچہ مثل شبنم گل دل دیا ہوں پی کے ہات
وہ رنگیلا کھولتا نیں عقدۂ سیما ہنوز

جان شیریں سے شرر تن میں جلاتا ہے مدام
طاعن کم ظرفئ فرہاد ہے خارا ہنوز

داغ دل عزلتؔ کو جوں لالہ ہے بلبل بن بہار
ان گلوں سے جی کسی رنگوں نہیں لگتا ہنوز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse