گردش چشم ہے پیمانے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گردش چشم ہے پیمانے میں
by رشید لکھنوی

گردش چشم ہے پیمانے میں
تم گئے ہو کبھی میخانے میں

ایک جلوہ سا نظر آتا ہے
کوئی تو ہے مرے غم خانے میں

یوں ہے سینے میں دل پر حسرت
قبر جیسے کسی ویرانے میں

ساز نیرنگ ہے میری زنجیر
نئی آواز ہے ہر دانے میں

دیکھ اے دل نہ مجھے چھوڑ کے جا
فرق آ جائے گا یارانے میں

جل کے عاشق ہوئے معشوق صفت
شمع کا سوز ہے پروانے میں

جان اس بت میں لگی رہتی ہے
اپنے کو پاتے ہیں بیگانے میں

بے خودی نے نہ کہیں کا رکھا
ہم ہیں بستی میں نہ ویرانے میں

سنگ در تک ترے جب سر پہنچا
لاکھ سجدے کئے شکرانے میں

نہیں معلوم گیا کس جانب
دل لگا ہے ترے دیوانے میں

قصۂ حضرت یوسف نہ سنو
طرفہ عبرت ہے اس افسانے میں

حال پرسی نہیں کرتا کوئی
بیکسی ہے مرے غم خانے میں

اس طرح دل میں ہے آہوں کا دھواں
جیسے خاک اڑتی ہے ویرانے میں

برکت کس کے قدم کی ہے رشیدؔ
کہ اذاں ہوتی ہے بت خانے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse