گردش چرخ سے قیام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گردش چرخ سے قیام نہیں
by امداد علی بحر

گردش چرخ سے قیام نہیں
صبح گھر میں ہوں میں تو شام نہیں

کبھی تو منہ سے بولئے صاحب
بے دہن ہو تو کچھ کلام نہیں

جاں بہ لب ہوں فراق دلبر میں
صبح جیتا رہا تو شام نہیں

کس کے زلفوں کے بال بکھرے ہیں
میرے نبضوں میں انتظام نہیں

روز و شب ذکر زلف و عارض ہے
یہ کہانی کبھی تمام نہیں

کیا رقیبوں سے میں جہاد کروں
میرے ہم راہ وہ امام نہیں

تیرا دیوانہ مر گیا شاید
آج گلیوں میں ازدحام نہیں

ہجر میں یہ شراب ہے تیزاب
ہاتھ پر آبلہ ہے جام نہیں

کیا سمجھ کر یہ ناز کرتے ہیں
امردوں کا کوئی غلام نہیں

ولولے تھے شباب تک اپنے
اب ہماری وہ دھوم دھام نہیں

اس طرف سے ہیں سجدے پر سجدے
اس طرف سے کبھی سلام نہیں

دل کو لے کر الگ ہوئے ایسے
کہ کبھی تم کو ہم سے کام نہیں

موج دریائے پائمالی ہے
اس جفاکار کا خرام نہیں

بوسہ لے کر مزا ملا مجھ کو
حنظل اس کا ذقن ہے آم نہیں

کس کے بل پر وہ شوخ ہے مغرور
خط شب رنگ فوج شام نہیں

بحرؔ بہکے ہوئے ہیں اہل دل
نشۂ آب زر مدام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse