گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ
by عاشق اکبرآبادی

گردش دوراں سے یہاں کس کو فراغ آیا ہے ہاتھ
ہاں مگر آیا تو اک حسرت کا داغ آیا ہے ہاتھ

نوحہ سنجی کی بھی مہلت عندلیبوں میں نہیں
باغباں قسمت سے کیا ہے بے دماغ آیا ہے ہاتھ

عمر گزری جستجوے کوچۂ دلدار میں
وائے ناکامی پس از مردن سراغ آیا ہے ہاتھ

دل کے داغوں نے کیا ہم کو چمن سے بے نیاز
منتیں مانی ہیں برسوں تب یہ باغ آیا ہے ہاتھ

داغ دل پر نالہ لب پر چشم گریاں سینہ ریش
عاشقؔ شوریدہ کو کس دم فراغ آیا ہے ہاتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse