گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
by مرزا محمد رفیع سودا

گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

نہ دیکھا جو کچھ جام میں جم نے اپنے
سو یک قطرۂ مے میں ہم دیکھتے ہیں

یہ رنجش میں ہم کو ہے بے اختیاری
تجھے تیری کھا کر قسم دیکھتے ہیں

غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں

حباب لب جو ہیں اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں

نوشتے کو میرے مٹاتے ہیں رو رو
ملائک جو لوح و قلم دیکھتے ہیں

مٹا جائے ہے حرف حرف آنسوؤں سے
جو نامہ اسے کر رقم دیکھتے ہیں

اکڑ سے نہیں کام سنبل کی ہم کو
کسی زلف کا پیچ و خم دیکھتے ہیں

خدا دشمنوں کو نہ وہ کچھ دکھائے
جو کچھ دوست سے اپنے ہم دیکھتے ہیں

ستم سے کیا تو نے ہم کو جو خوگر
کرم سے ترے ہم ستم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سوداؔ
اسے تیرے کوچے میں کم دیکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse