گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
by بہادر شاہ ظفر

گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
کروں اس ستم کو میں کیا بیاں مرا غم سے سینہ فگار ہے

یہ رعایۂ ہند تبہ ہوئی کہوں کیا جو ان پہ جفا ہوئی
جسے دیکھا حاکم وقت نے کہا یہ بھی قابل دار ہے

یہ کسی نے ظلم بھی ہے سنا کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گناہ
وہی کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے بخار ہے

نہ تھا شہر دہلی یہ تھا چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن
جو خطاب تھا وہ مٹا دیا فقط اب تو اجڑا دیار ہے

یہی تنگ حال جو سب کا ہے یہ کرشمہ قدرت رب کا ہے
جو بہار تھی سو خزاں ہوئی جو خزاں تھی اب وہ بہار ہے

شب و روز پھول میں جو تلے کہو خار غم کو وہ کیا سہے
ملے طوق قید میں جب انہیں کہا گل کے بدلے یہ ہار ہے

سبھی جادہ ماتم سخت ہے کہو کیسی گردش بخت ہے
نہ وہ تاج ہے نہ وہ تخت ہے نہ وہ شاہ ہے نہ دیار ہے

جو سلوک کرتے تھے اور سے وہی اب ہیں کتنے ذلیل سے
وہ ہیں تنگ چرخ کے جور سے رہا تن پہ ان کے نہ تار ہے

نہ وبال تن پہ ہے سر مرا نہیں جان جانے کا ڈر ذرا
کٹے غم ہی، نکلے جو دم مرا مجھے اپنی زندگی بار ہے

کیا ہے غم ظفرؔ تجھے حشر کا جو خدا نے چاہا تو برملا
ہمیں ہے وسیلہ رسول کا وہ ہمارا حامیٔ کار ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse