گئی جو طفلی تو پھر عالم شباب آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گئی جو طفلی تو پھر عالم شباب آیا
by مردان علی خاں رانا

گئی جو طفلی تو پھر عالم شباب آیا
گیا شباب تو اب موسم خضاب آیا

میں شوق وصل میں کیا ریل پر شتاب آیا
کہ صبح ہند میں تھا شام پنچ آب آیا

کٹا تھا روز مصیبت خدا خدا کر کے
یہ رات آئی کہ سر پہ مرے عذاب آیا

کہاں ہے دل کو عبث ڈھونڈھتے ہو پہلو میں
تمہارے کوچے میں مدت سے اس کو داب آیا

کسی کی تیغ تغافل کا میں وہ کشتہ ہوں
نہ جاگا نیزے پہ سو بار آفتاب آیا

نظر پڑی نہ مری رعب حسن سے رخ پر
اگرچہ سامنے میرے وو بے نقاب آیا

ہمیشہ صورت انجم کھلی رہیں آنکھیں
فراق یار میں کس روز مجھ کو خواب آیا

ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن
وو ماہ چہرہ پہ جب ڈال کر نقاب آیا

ہوئے جو دیدۂ گریہ سے اپنے اشک رواں
گماں ہوا کہ برستا ہوا سحاب آیا

بنا تصور لیلیٰ بہ صورت تصویر
کبھی جو قیس کی آنکھوں میں شب کو خواب آیا

وہ زود رنج ہے اس کو نہ چھیڑنا رعناؔ
ملو گے ہاتھ اگر بر سر عتاب آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse