گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
by محمد ابراہیم ذوق

گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
پڑا جس دن سے دل بس میں ترے اور دل کے ہم بس میں

کبھی ملنا کبھی رہنا الگ مانند مژگاں کے
تماشہ کج سرشتوں کا ہے کچھ اخلاص کے بس میں

توقع کیا ہو جینے کی ترے بیمار ہجراں کے
نہ جنبش نبض میں جس کی نہ گرمی جس کے ملمس میں

دکھائے چیرہ دستی آہ بالادست گر اپنی
تو مارے ہاتھ دامان قیامت چرخ اطلس میں

جو ہے گوشہ نشیں تیرے خیال مست ابرو میں
وہ ہے بیت الصنم میں بھی تو ہے بیت المقدس میں

کرے لب آشنا حرف شکایت سے کہاں یہ دم
ترے محزون بے دم میں ترے مفتون بیکس میں

ہوائے کوے جاناں لے اڑے اس کو تعجب کیا
تن لاغر میں ہے جاں اس طرح جس طرح بو خس میں

مجھے ہو کس طرح قول و قسم کا اعتبار ان کے
ہزاروں دے چکے وہ قول لاکھوں کھا چکے قسمیں

ہوئے سب جمع مضموں ذوقؔ دیوان دو عالم کے
حواس خمسہ ہیں انساں کے وہ بند مخمس میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse