کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے
by عشق اورنگ آبادی

کیوں ہے کہہ آئینہ اس درجہ تو حیراں مجھ سے
اپنی روداد کو مت کیجیو پنہاں مجھ سے

ہوں ہوا خواہ میں اے گل ترا جیوں موج نسیم
غنچہ ساں کب ہے گرہ کا ترے نقصاں مجھ سے

چشم مست اس کی نے دل توڑ کے پھیری ہے نظر
کہ نہ مانگے کہیں اس شیشہ کا تاواں مجھ سے

تیر نے خواب میں ہمدرد جو پایا اپنا
درد دل کہنے لگا ہو کے وہ گریاں مجھ سے

رم کا ہرنوں کے بگولے کی بھی بیتابی کا
راز سب واز کیا پھاڑ گریباں مجھ سے

گرم رکھتا تھا کہا مدرسہ جب وادی کا
علم وحشت کئے تحصیل غزالاں مجھ سے

سر پر اب خاک اڑاتا ہوا پھرتا ہوں عشقؔ
صاف دیکھا تو نہ تھی خاطر یاراں مجھ سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse