کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
by بیخود دہلوی

کیوں کہہ کے دل کا حال اسے بد گماں کروں
یہ راز وہ نہیں ہے جسے میں بیاں کروں

مجھ کو یہ ضد کہ وصل کا اقرار تم سے لوں
تم کو یہ ہٹ کہ میں نہ کبھی تجھ سے ہاں کروں

یہ کہہ رہی ہے مجھ سے کسی کی نگاہ شرم
فرصت اگر حیا سے ملے شوخیاں کروں

تو مجھ کو آزما کے وفاداریوں میں دیکھ
میں بے وفائیوں میں ترا امتحاں کروں

اکتا گیا ہے شرع کی پابندیوں سے جی
دل چاہتا ہے بیعت پیر مغاں کروں

بیخودؔ رفیق ہے نہ کوئی ہم طریق ہے
دل پر جو کچھ گزرتی ہے کس سے بیاں کروں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse