کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو
by صفدر مرزا پوری

کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو
اس کو فریب دو جو تمہیں جانتا نہ ہو

یہ چاہتے ہیں ہم کہ کوئی دوسرا نہ ہو
خلوت ہو ہم ہوں تم ہو تمہاری حیا نہ ہو

اے دل خدا کے واسطے ہم سے خفا نہ ہو
حسن آشنا تو تھا ہی ستم آشنا نہ ہو

وہ ہو جو تیری شان کے شایاں ہو اے کریم
میں کیا کہوں زباں سے کہ اب کیا ہو کیا نہ ہو

یہ اور بات ہے کہ نیا آسمان ہے
جو ہو چکے بہت ہیں ستم اب نیا نہ ہو

گزرے مزے سے حشر کا دن انتظار میں
میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ وعدہ وفا نہ ہو

میں سخت جان دور اجل تیغ نازنیں
یہ کام آپ سے کہیں تنہا ہوا نہ ہو

اتنا ہی تو کہا تھا کہ جاگے ہو رات کے
یہ روٹھنے کی بات نہیں ہے خفا نہ ہو

ناوک فگن ٹھہر کہ ذرا دل سنبھال لوں
ڈرتا ہوں میں کہ پھر کہیں ناوک خطا نہ ہو

اب آئنوں کی خیر نہیں ہے دلوں کی طرح
وہ چاہتے ہیں ہم سا کوئی دوسرا نہ ہو

اپنی زباں سے ہم اسے بے درد کیوں کہیں
یہ اور بات ہے کہ وہ درد آشنا نہ ہو

لطف کلام یہ کہ حسیں سن کے ہوں فدا
صفدرؔ وہ شعر کیا ہے کہ جس میں مزہ نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse