کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رعنا الف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رعنا الف
by جوشش عظیم آبادی

کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رعنا الف
اور کچھ خوبی نہیں رکھتا ہے اک سیدھا الف

جیسا ہے اس برہمن زادے کے قشقے کا الف
لکھ نہیں سکتا ہے کوئی خوش نویس ایسا الف

جب سے دی تعلیم گریہ اوستاد عشق نے
تختۂ سینہ پہ طفل اشک نے کھینچا الف

وصف بینی میں یہ کیا مصرع زباں پر آ گیا
اس کی بینی ہے بلند اور اس سے ہے چھوٹا الف

گرد ہے نقش و نگار چین ان کے رو بہ رو
ہیں ردائے فقر پر اس طرح کے زیبا الف

قتل کو عاشق کے انگشت اشارت کر بلند
تیری انگشت اشارت ہے شہادت کا الف

سرکشی کرتا ہے یوں ہر آن میرا نفس شوم
جس طرح سے دم بہ دم ہو جائے ہے گھوڑا الف

اتنے پر بھی ذات واحد سے ہیں غافل ناقصاں
کھنچ رہا ہے موئے تن سے تن پہ سر تا پا الف


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.